عباس ثاقب
قیامِ پاکستان کے فوراً بعد قائد اعظم محمد علی جناح کی زیرنگرانی قائم مسلم لیگ کی حکومت کو اس نوزائیدہ ملک کی خارجہ پالیسی کے بنیادی نکات متعین کرنے کا چیلنج درپیش ہوا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب جنگ عظیم دوم کے خاتمے کے بعد اقوام عالم اپنے حریفوں اور حلیفوں کا نئے سرے سے تعین کررہی تھیں۔چند سال پہلے تک بڑی عالمی طاقت ہونے کے زعم میں مبتلاجرمنی اور جاپان عبرت انگیز شکست کھانے کے بعد ابھی پوری طرح سنبھل بھی نہیں پائے تھے۔ جب کہ دوسری طرف کئی صدیوں سے دنیا کی سب سے نمایاں اقتصادی اور فوجی قوت ہونے کے دعوے دار برطانیہ کی چمک دمک، ایک نئی اور غیرمعمولی وسعت اور تحرک کی حامل عالمی قوت امریکا کے سامنے ماند پڑگئی۔ ایسے میںسرمایہ دارانہ نظام کی علامت امریکاکے عالمی سبقت اور فوقیت کے زعم کو چیلنج کرنے کی جسارت صرف کمیونسٹ روس ہی کرسکتاتھا۔ یہ دونوں ہی طاقتیں پاکستان کو اپنے دائرہ اثر میں لینے کے لیے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے کوشاں تھیں۔
تاہم پاکستان کے اقوام عالم سے براہ راست تعلقات کی ابتدا اس کے قیام کے فورا ً بعد ہی ہوچکی تھی ۔ سلطنت کویت کے حکمران ، شیخ احمدالجابر الصباح وہ پہلے غیرملکی سربراہ تھے جنہوں نے پاکستان کا باضابطہ سرکاری دورہ کیا تھا۔ کویت کا شمار کسی زمانے میں عرب خطے کی سب سے خوشحال ریاستوں میں ہوتاتھا لیکن عرب اور نجد کی جنگ اور بعد ازاں کئی عالمی پابندیوں کی وجہ سے اس ملک کی معیشت کو شدید نقصان پہنچا تھا، تاہم 1946ء میں تیل کی دریافت کے نتیجے میں یہ ملک ایک بار پھر خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوچکاتھا۔ پاکستان کے قیام کے چند ہی دن بعد ، یعنی ستمبر 1947ء میں شیخ احمدلجابر الصباح پاکستان کے دورے پر تشریف لائے اور تمام تر مشکل حالات کے باوجود پاکستانی وزیراعظم لیاقت علی خاں (شہید) نے اپنی کابینہ سمیت ان کا پرتپاک استقبال کیا ، جب کہ انہوں نے پاکستان کے گورنرجنرل قائداعظم محمد علی جناح ؒ سے بھی ملاقات کی ۔برادراسلامی ملک کے سربراہ کا یہ دورہ پاکستان کی حکومت اور عوام کے لیے ایک اچھے شگون کی حیثیت رکھتاتھا ، جب کہ اس دورے سے دونوں ملکوں میں دیرینہ دوستانہ تعلقات کی ابتدا بھی ہوئی ، جس کے نتیجے میں بعد ازاں ہزاروں پاکستانیوں کو نئے کویت کی تعمیر و ترقی میں سرگرمی سے حصہ لینے اور ملک کو شدت سے درکار زرمبادلہ بھجوانے کا موقع بھی ملا۔
پاکستان کے دورے پر تشریف لانے والے دوسرے غیرملکی سربراہ سوئیکارنوایک ایسی شخصیت تھے جنہیں پاکستان کی عوام و حکمران یکساں طور پر عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے، جب کہ خود انڈونیشیا کے پہلے صدر بھی پاکستان اور خصوصاً قائد اعظم ؒ کے لیے محبت و احترام کے گہرے جذبات رکھتے تھے۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے برصغیر پر برطانوی تسلط کے زمانے میں انڈونیشیا پر ولندیزی قابض تھے اور انڈونیشیائی قوم ڈاکٹر احمد سوئیکارنو اور ڈاکٹر محمد حتیٰ کی زیرقیادت آزادی و خود مختاری جدوجہد میں مصروف تھی۔ 17اگست1945ء کو ان دونوں رہنماؤں نے جمہوریہ انڈونیشیا کے قیام کے ساتھ ولندیزی تسلط سے آزادی کا اعلان کردیا اور اس نوآزاد شدہ ملک کے بالترتیب صدر اور نائب صدر قرار پائے۔ اس کے دوسال بعد پاکستان بھی معرض وجود میں آگیا، تاہم ان دونوں ممالک کی آزادی سے بہت پہلے سے دونوں قوموں کے بانی یعنی قائدا عظم اور ڈاکٹر سوئیکارنو اپنی اپنی قوموں کو آزادی دلانے کے لیے باہم مل کر جدوجہد کرتے رہے تھے ۔
دراصل 1945ء میں انڈونیشیا کی آزادی کے بعد ولندیزی حکمرانوں نے انڈونیشا پر دوبارہ قبضہ جمانے کی نیت سے برصغیر پر قابض برطانیہ سے گٹھ جوڑ کرلیاتھا۔ اس پر آل انڈیا مسلم لیگ کے سربراہ محمد علی جناح نے برصغیر کے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ انڈونیشیا کی آزادی کی جدوجہد میں اس کا ساتھ دیں۔ یہی نہیں قائد اعظم محمد علی جناح نے (جو بعد ازاں بانی ٔ پاکستان بنے ) نے نئی دلی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر دفتر سے انڈونیشیا کی قوم پر ولندیزی نوآباد کاروں کی زیادتیوں کے خلاف شدید صدائے احتجاج بلند کی اور اپنے حامیوں(مسلم لیگی ووٹروں ) سے انڈونیشیا کے مسلمانوں کی ہرممکن مددکی پُر زور اپیل کی۔ چناں چہ قائد اعظم محمد علی جناح کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے برطانوی ہندستانی فوج کے 600مسلمان سپاہی اپنا سب کچھ داؤ پر لگاکر اپنے انڈونیشیائی بھائیوں کے ساتھ نوآبادیاتی فوجوں کے خلاف جنگ میں شامل ہوگئے۔ ان چھے سو باہمت فوجیوں میں سے تقریباً پانچ سو مسلح جدوجہد میں شہید ہوگئے ، باقیوں میں کچھ پاکستان کے قیام کے بعد وطن آگئے اور کچھ انڈونیشیا میں رہنے لگے۔
یہی نہیں ، اگست1947ء کے آخر میں قائد اعظم محمد علی جناح نے توپوں اور گولہ بارود سے لدے ان ولندیزی جہازوں کو کراچی کے ہوائی اڈے سے پرواز کرنے سے روک دیا، جو انڈونیشیاجاتے ہوئے ایندھن لینے کے لیے یہاں اترے تھے۔ حکومت پاکستان کی طرف سے ولندیزی جارحیت کو ایشیا کی روح پر حملہ قرار دیا گیا۔ انڈونیشیا کی آزادی میں پاکستانی قوم اور اس کے بانی کی خدمات کے اعتراف میں انڈونیشیا کی آزادی کی پچاس سالہ تقریبات کے موقع پر17 اگست 1995ء کو انڈونیشیا کی حکومت نے اپنی آزادی کے لیے لڑنے اور شہید ہونے والے پاکستانی فوجیوں کو اعلیٰ جنگی اعزازات سے اور بانی پاکستان اور حکومت پاکستان کو اپنے ملک کے سب سے بڑے اعزاز’’آدی پورا‘‘ سے نوازاتھا، جب کہ دوسری طرف 1965ء میں بھارت کے خلاف جنگ میںانڈونیشیا کی طرف سے پاکستان کی بھرپور مدد بھی کبھی فراموش نہیں کی جاسکے گی۔ دونوں ملکوں میں یہ برادرانہ تعلق آج بھی قائم اور مستحکم ہے۔
دوسری طرف پاکستان کے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے اپنے پہلے سرکاری دورے کے لیے امریکا کا انتخاب کرکے امریکا اور روس میں کسی ایک کی طرف جھکاؤ کے پیچیدہ سوال کو ایک سوال عطا کردیاتھا۔ اس فیصلے پر آج تک اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں ۔ لیکن اس فیصلے کی وجوہات سمجھنے کے لیے اس دورکی عالمی صورت ِ حال کو ذہن میں تازہ کرنا ضروری ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے لیے راہ کا تعین تو قائداعظم ؒ اپنی زندگی میں ہی کرچکے تھے۔
ڈاکٹر الطاف حسین قریشی اپنے مضمون ’’ امریکی تعلقات کے اندھیرے اجالے ‘ ‘ میں لکھتے ہیں:
امریکا 1923ء کے آغاز تک برصغیرِ ہند کے سیاسی مدوجذر اور مسلم قوم کے اندر اْبھرتی ہوئی جداگانہ وطن کی تحریک سے تقریباً نابلد تھا۔ انڈین نیشنل کانگریس جو 1886ء میں قائم ہوئی تھی اور وہ ایک بڑی سیاسی جماعت اور مہاتماگاندھی کے عدم تشدد کے نظریے کے حوالے سے برطانیہ اور امریکا میں کسی قدر جانی پہچانی جاتی تھی مگر مسلم لیگ کی سیاسی سرگرمیوں کا اْن کے اکابرین کو کچھ علم نہیں تھا۔ پہلی بار ایک برطانوی مصنف کلاوڈوین ٹائن نے اپنی کتاب میں لکھا کہ ’’ہندوستان کے سات کروڑ مسلمان ہر لحاظ سے ایک قوم ہیں اور حکومت کو اْنہیں ایک قوم ہی تصور کرنا چاہیے‘‘ محمد علی جناح کا ایک لیڈر کی حیثیت سے مغرب میں اِس وقت تعارف ہوا جب اْنھوں نے 12نومبر 1930ء میں لندن میں ہونے والی گول میز کانفرنس میں شرکت کی اور اِس کی رْوداد قائداعظم کی تصویر کے ساتھ روزنامہ ٹائمز لندن میں شائع ہوئی۔ اِس روزنامے نے اپنے تجزیے میں یہ بھی تسلیم کیا تھا کہ ہندوو?ں اور مسلمانوں کے مذہبی اور سماجی اختلافات بہت گہرے ہیں۔امریکی روزنامے نیویارک ٹائمز نے بابائے قوم کی پوری تقریر شائع کی جو امریکی تھنک ٹینکس میں گفتگو کا موضوع بنی۔ کوئی دس سال بعد اِسی روزنامے نے 25فروری 1940ء کی اشاعت میں تحریر کیا کہ مسلمان انڈین فوج کا بہترین حصہ ہیں ، چنانچہ برطانیہ اْن کو ناراض نہیں کر سکے گا اور اْسے اْن کے قومی جذبات کا احترام کرنا ہو گا۔ دو سال بعد اِسی روزنامے کے نمایندے بریڈٹ میتھوز نے ہندوستان کا تفصیلی دورہ کیا اور اپنی رپورٹ میں لکھا کہ ’’پاکستان کے نظریے نے مسلم لیگ کو اِس قدر مضبوط بنا دیا ہے کہ اب اگر جناح بھی چاہیں تو وہ اِس نظریے سے دستبردار نہیں ہو سکتے۔‘‘ اِن دنوں حالات غیر معمولی رفتار سے تبدیل ہو رہے تھے اور دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے پر برطانوی وزیر اعظم چرچل اور امریکی صدر روز ویلٹ کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا کہ نوآبادیات کوجلد آزادی دی جائے گی۔ انگلستان میں جو انتخابات ہوئے، تو لیبر پارٹی کامیاب ہوئی اور مسٹر ایٹلی وزیراعظم چنے گئے جو چرچل کے مقابلے میں نوآبادیات کو بلا تاخیر آزادی دینے کے حق میں تھے۔
امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے ہندوستان کی سیاسی صورتِ حال مانٹیرنگ کرنا شروع کر دی تھی کہ اب برصغیر اْس کی دلچسپی کا مرکز بنتا جا رہا تھا۔ اسی ضمن میں اہم امریکی سفارت کاروں نے مئی اور جولائی 1947ء کے درمیان بابائے قوم سے بڑی اہم اور دوررس اہمیت کی ملاقاتیں کیں جن کا تذکرہ مسٹر ایم۔ ایس کتراومنی نے اپنی تصنیف ’’پاکستان میں امریکی کردار‘‘ میں کیا ہے۔ قائداعظم نے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے عہدے داروں کو یقین دلایا تھا کہ ایک آزاد اور خودمختار پاکستان امریکا کے مفاد میں ہو گا کیونکہ روسی جارحیت کا مسلمان متحد ہو کر مقابلہ کر سکیں گے۔ قائداعظم نے جولائی 1947ء کو دہلی میں پریس بریفنگ میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کے بارے میں کہا: ’’ نئی ریاست تمام قوموں کی بہترین دوست ہو گی۔ ہم دنیا میں امن کے خواہاں ہیں اور اِس ضمن میں ہم سے جو کچھ ہو سکا ، اپنا کردار ادا کریں گے۔‘‘ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ امریکا وجود میں آنے والے پاکستان کے قریب آتا گیا۔ 7اگست 1947ء کو پاکستان کے نامزدگورنر جنرل دہلی سے کراچی روانہ ہوئے تو انڈیا میں امریکی سفیر اْنہیں رخصت کرنے ائیرپورٹ پر موجود تھے۔ قائد اعظم نے گورنر جنرل کی حیثیت سے 15اگست 1947ء کو حلف اْٹھایا، تو امریکا پاکستان کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک تھا اور آزادی کی تقریبات میں شامل ہونے والا امریکی وفد سب سے بڑا تھا۔ اِس بڑھتی ہوئی قربت کے تناظر میں قائد اعظم نے امریکا کی معروف صحافی مارگریٹ لورک وائٹ کو امریکا کے بارے میں جو بیان دیا تھا ? وہ آج بھی ایک بڑی حقیقت کا مظہر ہے۔ اْن کا کہنا تھا کہ ’’امریکا کو پاکستان کی نسبتاً زیادہ ضرورت ہے جتنی پاکستان کو امریکا کی ہے۔ پاکستان محلِ وقوع کے اعتبار سے دنیا کا محور ہے۔‘‘
وسری جنگِ عظیم کے خاتمے پر امریکا اور سوویت یونین سپر پاورز کے طور پر اْبھرے اور کچھ ہی عرصے بعد اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی دوڑ میں اِن کے درمیان سرد جنگ شروع ہو گئی۔ امریکا’’ آزاد دنیا‘‘ کے لیڈر کے طور پر پیش قدمی کر رہا تھا جبکہ روس کے گرد ایک ’’آہنی پردہ‘‘تنا ہوا تھا اور اِس کی قیادت خونیں انقلابات کے ذریعے اشتراکی نظامِ زندگی مسلط کرنے کی سرتوڑ کوشش کر رہی تھی۔ اْس نے مشرقی یورپ کے بیشتر ممالک پر قبضہ کر لیا تھا۔ نئی ریاست کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے تعاون حاصل کیا جا سکتا ہے چنانچہ اْنہوں نے ستمبر 1946ء میں ابوالحسن اصفہانی اور بیگم ذکیہ شاہنواز کو اِس مقصد سے امریکا روانہ کیا کہ وہ انڈین نیشنل کانگرس کے اِس زہریلے پروپیگنڈے کا موثر جواب دیں کہ مسلمان رجعت پسند ہیں اور اْن کی خواتین سیاسی عمل سے کٹی ہوئیں اور اپنے حقوق سے یکسر بے خبر ہیں۔
اْنہیں یہ ٹاسک بھی دیا گیا کہ وہ صراحت کے ساتھ یہ نکتہ بیان کریں کہ نئی ریاست میں تھیوکریسی ہو گی نہ برداشت کا فقدان ہو گا بلکہ تمام شہریوں کو مکمل سیاسی اور مذہبی آزادی حاصل ہو گی۔ قائد اعظم اِس دوران مختلف امریکی صحافیوں سے تبادلہ خیال بھی کرتے رہے۔ انہی کوششوں کا ثمر تھا کہ جب قائد اعظم نے پاکستان کے گورنر جنرل کی حیثیت سے حلف اْٹھایا تو امریکی صدر ٹرومین نے حسبِ ذیل تہنیتی پیغام دیا جو آئندہ کے تعلقات کی بنیاد بناتھا:
’’میں آپ کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ پاکستان امریکا کی مضبوط دوستی اور خیر سگالی کے ساتھ اپنے سفر کا آغاز کرے گا۔ امریکی حکومت اور عوام آپ کے ملک سے طویل قریبی اور خوشگوار مراسم کی اْمید رکھتے ہیں۔ ہم آپ کی خوشی میں شامل ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ پاکستان اپنے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے تیزی سے ترقی کرے گا۔ ہم اِس امر کے منتظر ہیں کہ نیا ملک انسانی فلاح کے لیے عالمی امور میں تعمیری کردار ادا کرے گا۔‘‘
اِس پیغام کے جواب میں گورنرجنرل پاکستان نے یہ پیغام بھیجا:
’’آپ نے امریکی عوام کی طرف سے دولتِ پاکستان کے نام نیک تمناؤں اور مبارک باد کا جو پْرجوش پیغام ارسال کیا ہے ۔ اِس سے حکومتِ پاکستان
عوام اور میں بے حد متاثر ہوئے ہیں۔ ہم دوستی اور خیرسگالی کے جذبات کی بہت قدر کرتے ہیں۔ میرے ذہن میں ذرا بھی شک نہیں کہ یہ امریکا اور پاکستان کے درمیان طویل قریبی اور خوشگوار تعلقات کا آغاز ہے۔‘‘
قائد اعظم نے اپنے دیرینہ قابلِ اعتماد ساتھی ابوالحسن اصفہانی کو امریکا میں سفیر نامزد کیا جنہوں نے 8اکتوبر 1947ء کو امریکی صدر ٹرومین کو کاغذاتِ نامزدگی پیش کیے اور پاکستان کی معیشت کے استحکام ، تعلیمی ترقی اور عوام کا معیارِ زندگی بلند کرنے پر زور دیا۔ اِس پر امریکی صدر نے مختلف شعبوں میں تعاون کی یقین دہانی کرائی۔
امریکا اور پاکستان کے مابین چند سال بعد ایک دفاعی معاہدہ طے پایا اور کمیونزم کی یلغار کی روک تھام کے لیے سینٹو اور سیٹو کے معاہدے معرضِ وجود میں آئے جن میں پاکستان کو بنیادی اہمیت حاصل تھی۔ ٭
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post