عبدالحفیظ عابد
تحریک آزادی میں براہ راست حصہ لینے والی نسل تقریباً ختم ہوچکی، جس نے پاکستان بنتے دیکھا وہ ضعف کو پہنچ چکی ہو، جو ہجرت کے فوری بعد پیدا ہوئی اس کے اعضا بھی مضمحل میں ہیں۔ آئندہ ایک دو عشروں میں ملک کی زمام کار جس نسل کے ہاتھ میں مکمل طور پر ہوگی بحیثیت قوم آیا ہم نے اس کی تربیت اس نہج پر کی ہے کہ وہ نظریاتی طور پر پختہ ذہن ہو اور پوری طرح احساس ہو، آزادی کی منزل پانے تک آگ اور خون کے کیسے کیسے دریا پار کئے گئے تھے اور نامور اور گمنام کروڑوں لوگوں نے کہاں کہاں اور کیسے پھانسیوں کے پھندوں کو چوما تھا۔ توپ کے گولوں اور گولیوں کی بوچھاڑ کے سامنے اپنے سینے پیش کئے تھے۔ کتنے بچوں کو نیزوں پر اچھالا گیا اور کتنی مائوں، بہنوں، بیٹیوں نے کیسے کیسے قربانیاں دیں تب جا کر غلامی کی طویل رات کی کوکھ سے آزادی کی صبح صادق طلوع ہوئی اور انگریز سامراج اور چانکیہ استعمار کے غلبے سے نجات ملی۔
قوم آزادی کے 71سال مکمل ہونے پر پورے جوش جذبے سے جشن منا رہی ہے ، آزادی اللہ تعالیٰ کی اتنی عظیم ترین نعمت ہے کہ اس کا کوئی بدل نہیں ہے، بدقسمتی سے ہمیں آزادی کی قدر و قیمت کا بہت کم احساس ہے، 8 لاکھ غاصب بھارتی درندہ فورس کے سامنے سینہ سپر مقبوضہ کشمیر کی خواتین، بچوں، بزرگوں، جوانوں، اسرائیلی درندوں کا مقابلہ کرنے والے فلسطینی عوام سے آزادی کی قدر و قیمت پوچھیں جو گزشتہ چھ سات عشروں سے روزانہ کی بنیاد پر اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھا رہے ہیں، لاکھوں انسان اب تک اپنا خون پیش کرچکے ہیں۔ کوئی گھرانہ ایسا نہیں ہے جس میں زخمی اپاہج نہ ہوں جس کا کوئی فرد عقوبت خانے میں بالا تر نہ ہو۔ ان کی معاشرت معیشت کسی حوالے سے جو کچھ بھی تباہ و بربادی سے بچا ہے وہ سب غلامی کی تاریک طویل رات سے نجات حاصل کرنے کے لئے قربانی کرنے کے لئے تیار ہیں۔ انہیں اندازہ ہے کہ عالمی ادارے طاقتور استعمار کا آلہ کار ہیں۔ عالمی ضمیر مسلمانوں کے معاملے میں اپنی موت آپ مرچکا ہے لیکن اس کے باوجود کشمیر اور فلسطین کے عوام ہمالیہ جیسے بلند عزم و حوصلے کے ساتھ جوہر طاقت کے حامل استعمار بھارت اور اسرائیل سے اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر پکڑلئے ہوئے ہیں اور آخر فتح انہی کا مقدر ہوگی۔
تمام تر مشکلات کے باوجود پاکستان ایک آزاد نظریاتی وطن کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ کی عظیم ترین نعمت ہے جس پر ہر ہر لمحہ جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔ اس کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ انشاء اللہ اسے قیامت تک اپنے نظریاتی تشخص کے ساتھ زندہ و تابندہ رہتا ہے۔سیاسی کشاکش مفادات کے ٹکرائو سے طبقاتی لڑائی، نا انصافی حقوق کی پامالی جیسی بیماریوں سے ملک کو بڑا نقصان ہوا ہے اور اس میں شخصیات کے ساتھ تمام ہی اداروں سے منفی کردار ادا کیا ہے۔ ان دنوں بھی یہی ماحول ہے اور پارہ کافی بلند ہے۔ اداروں کے ٹکرائوا یک دوسرے کو زیر کرنے ایک دوسرے کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالنے، کرپشن، لوٹ مار سمیت دیگر سنگین الزامات اور گھمبیر مسائل کا ایک ہی حل ہے کہ آئین، قانون، قاوعد و ضوابط پر ان کی اصل وجہ کے مطابق سختی سے بلا امتیاز عمل کیا جائے اور کوئی کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو اسے کسی مصلحت کسی مفاد کے تحت ہرگز کوئی رعایت نہ دی جائے اور تمام ادارے آئین اور قانون کی حدود میں کام کریں۔ کوئی طاقتور یا کمزور دوسرے کے دائرہ کار میں مداخلت نہ کریں اور جو خلاف ورزی کرے اس سے آئین و قانون کے مطابق سختی سے نمٹا جائے۔1988ء سے 2017ء تک پاکستان فوجی آمریت، نیم جمہوری، جمہوری سیکولر لبرل ایک حد تک مذہبی ہر طرح کی حکومتیں آچکی ہیں اور ان ادوار میں 1973ء کا آئین پارلیمنٹ کے ذریعے تراش خراش سے گزر کر ایک متفقہ مقدس قومی دستاویز کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کی ایک شق کو پوری نیک نیتی سے اس کی اصل روح کے مطابق روبعمل لایا جائے۔ اس کے کسی آرٹیکل اور اس کی ذیلی شق کو عمل کے لحاظ سے معطل نہ رکھا جائے اس سلسلے میں پارلیمنٹ جہاں اپنا بھرپور کردار ادا کرے وہیں سپریم کورٹ جو کہ آئین اور قانون کی تشریح کے سلسلے میں حتمی اتھارٹی ہے وہ ماضی کی منفی روایات اور نظریہ ضرورت کو دفن کرکے آئین کی حقیقی معنوں میں بالادستی قائم کرے اور اس سلسلے میں دیانت داری اہلیت مہارت کو پوری طرح بروئے کار لایا جائے۔ ملک کا نظام چلانے میں شریک تمام فریقوں تمام قوتوں، تمام اداروں سیاسی، معاشرتی، معاشی اسٹیک ہولڈرز کو حتمی طور پر یہ تسلیم کرلینا چاہیے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان نظریہ اسلام کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا اور اس کی سلامتی، بقا، یکجہتی، ترقی و خوشحالی اس نظریئے پر کلی طور پر عملدرآمد میں ہی مضمر ہے۔ یوم آزادی مناتے ہوئے نئے عزم اور خلوص سے تمام اسٹیک ہولڈرز اور پوری قوم کو عہد کرنا ہوگا اب صرف اور صرف آئین اور قانون پر عمل ہوگا۔ اسلامی نظریاتی اساس کو پروان چڑھایا گیا اور اس کی ہر طرح کے مطابق ہر شعبے ہر میدان میں اخلاق کردار و عمل کو بروئے کار لانے کو یقینی بنایا جائے گا۔
یہ بات بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ تحریک آزادی تحریک کے لیے جس رہنما جس گمنام مرد عورت بچے بزرگ جوان نے کوئی قربانی دی ہے جس نے جو خدمت انجام دی ہے وہ پوری قوم کے لیے ہیرو ہے۔ ہماری آئندہ نسلیں اس کی مقروض ہیں۔ اس طرح پاکستان کی بقاء سلامتی استحکام ترقی کے لیے بھی جس نے جو کردار ادا کیا ہے وہ قابل تحسین ہے اور پوری قوم کے شکریئے کا مستحق ہے۔
تحریک آزادی میں برصغیر کے ہر علاقے کے مسلمانوں نے کسی نہ کسی طرح حصہ لیا وہ علاقے جہاں مسلمان اقلیت میں تھے اور انہیں یقین تھا کہ پاکستان کی تشکیل کی صورت میں ان کے علاقے نئی مملکت اسلامیہ میں شامل نہیں ہوئے وہ بھی پیش پیش رہے۔ باب الاسلام سندھ کے مسلمانوں نے خصوصاً اہم کردار ادا کیا۔ پیر پگارا کی حر تحریک جہادی سرگرمیوں نے انگریز کو ہلاکر رکھ دیا۔ یہ قربانیوں کی ایک بے مثال تاریخ ہے۔ خود تحریک کے قائد پیر صبغت اللہ شاہ راشدی پیر پگارا (موجودہ پیرپگارا کے دادا) کو انتقاماً غاصب سامراج انگریز نے سینٹرل جیل حیدرآباد میں پھانسی دی تھی۔
سن کے غلام مرتضیٰ سید المعروف جی ایم سید مسلم لیگ اور تحریک آزادی کے روح رواں تھے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کا جو سالانہ تاریخ اجتماع 22سے24 مارچ 1940ء تک لاہور منٹو پارک (اقبال پارک) میں منعقد ہوا تھا اور جس میں23مارچ کو تاریخی قرار لاہور (جو بعد میں قرارداد پاکستان سے موسوم کی گئی) منظور کی گئی تھی۔ اس میں صوبہ سندھ تین کے تین وزراء شیخ عبدالمجید سندھی، جی ایم سید اور خان بہار محمد ایوب کھوڑو بھی صدر مسلم لیگ سندھ سرعبداللہ ہارون کے ساتھ اسٹیج پر موجود تھے۔ قائداعظم کی زیر صدارت یہ اس اجلاس میں قرارداد وزیراعلیٰ بنگال شیر بنگال مولوی فضل الحق نے پیش کی تھی۔ (تحریک آزادی میں سندھ کا کردار جلد دوم از ڈاکٹر عبدالجبار عابد لغاری)
مسلم لیگ میں دھڑے بندی اور سندھ حکومت میں اکھآر پچھاڑ کے باوجود یہ جی ایم سید ہی تھے۔ جنہوں نے3مارچ 1937ء کو سندھ اسمبلی کے اجلاس میں پاکستان کے حق میں قرارداد پیش کی تھی۔ جس میں کہا گیا تھا۔ ہندوستان کے مسلمان علیحدہ قوم ہیں اور علیحدہ قومیت کے تحت علیحدہ وطن کا مطالبہ کرتے ہیں یہ تفصیلی قرارداد تھی جس کی منظوری کے حق میں 24ووٹ آئے جبکہ ہندو ارکان جن میں سے دو وزیر اور ایک پارلیمانی سیکریٹری تھے۔ انہوں نے خلاف ووٹ دیا (تحریک آزادی میں سندھ کا کردار) افسوس کہ دسمبر 1946ء کے انتخابات میں جی ایم سید کا پارٹی ٹکٹوں پر قائداعظم علی جناح سے شدید اختتلاف ہوگیا۔ سندھ میں مسلم لیگ کی مقبولیت کو جی ایم سید اپنا کارنامہ قرار دیتے تھے اور اپنا حق سمجھتے تھے کہ پارٹی ٹکٹ ان کی مرضی سے دیئے جائیں جن میں سید صاحبان زیادہ امیدوار تھے جب کہ قائداعظم میرٹ پر ٹکٹ دینے کے حق میں تھے۔
اختلاف کی اس شدت کے نتیجے میں جی ایم سید قاضی محمد اکبر کے مقابلے میں اپنی نشست ہار گئے اورنہ صرف قائداعظم مسلم لیگ بلکہ پاکستان کے بھی سخت مخالف ہوگئے اور پھر پوری عمر وہ سندھودیش کے قیام کے تگ و دو کرتے رہے لیکن سندھ کے باشعور اور محب وطن عوام نے ان کا احترام تو ضرور کیا مگر ان کی خواہش کو کبھی پذیرائی نہیں بخشی۔
بلوچستان کے نامور مسلم لیگی رہنما قاضی محمد عیسیٰ تو اس پر فخر کرتے تھے کہ قائداعظم جب بھی کوئٹہ جاتے تو قاضی صاحب کی رہائش گاہ پر قیام فرماتے تھے اور قاضی صاحب خود سعاد کے طورپر ان کی گاڑی ڈرائیور کرتے تھے۔ قاضی محمد عیسیٰ کو قائداعظم کی خدمت میں اس قدر پذیرائی حاصل تھی کہ قائداعظم کسی اصولی بات پر مولوی اے کے فضل الحق سے ناراض ہوگئے۔ تو انہوں نے قاضی محمد عیسیٰ کی وساطت سے معافی کی درخواست پہنچائی اور قائداعظم نے ڈسپلن کی سنگین غلطی کو بھی قاضی صاحب کی وجہ سے معاف کردیا اور انہیں دوبارہ مسلم لیگ میں آنے کی اجازت دے دی۔ یوں بلوچستان کے تحریک پاکستان کے رہنمائوں اور کارکنوں کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیے بغیر نہیں رہا جاسکتا۔ (سپریم کورٹ کے جج جسٹس فائز عیسیٰ قاضی، مسلم لیگ کے رہنما قاضی محمد عیسیٰ کے بیٹے ہیں۔ (تاریخ آل انڈیا مسلم لیگ سرسید سے قائداعظم تک آزاد بن حیدر)
سندھی بیرسٹر محمد علی جناح کے قائداعظم بننے میں ان کی اہلیت تدبیر کے ساتھ ان کی اصول پسندی کا بہت زیادہ دخل تھا۔ وہ غور و فکر مشاورت کے بعد جو موقف ایک بار اختیار کرلیتے پھر انہیں کوئی طاقت اس سے نہیں بناسکتی تھی۔ مارچ 1948ء میں قائداعظم ڈھاکہ تشریف لے گئے جب کہ زبان کے مسئلے پر ہنگامہ آرائی کی گئی تھی۔ 24مارچ کو ڈھاکہ یونیورسٹی میں جلسہ تقسیم اسناد سے خطاب کیا۔ آپ نے فرمایا کہ ’’آزادی کے معنی بے راہ روی کے نہیں ہیں کہ جو تمہارا دل چاہتے وہ کرو اور عوام کے مفاد کو پس پشت ڈال دو، ریاست کی سلامتی نظر انداز کردو، ہمیں ایک متحدہ قوم بن کر کام کرنا ہے۔ نظم و ضبط قائم رکھتا ہے اور تعمیر جذبہ بروئے کار لانا ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ زبان کے مسئلے پر وزیراعظم کے واضح بیان کے بعد بھی جھگڑا پیدا کیا جارہا ہے اور اس کے لیے صوبائی عصبیت کا زیر پھیلایا جارہا ہے۔ میں دوبارہ اس کی صراحت کر دینا چاہتا ہوں کہ صوبے میں سرکاری … کے لیے تم جو زبان چاہو اختیار کرلو، جو تمہارے نمائندوں کا کام ہے لیکن ریاست کے مختلف صوبوں کے باہمی ارتباط کے لیے صرف ایک ہی ریاستی زبان ہوگی جو اردو اور صرف اردو ہونی چاہیے۔‘‘ 25مارچ کو چٹاگانگ میں گریٹڈ افسروں نے قائداعظم نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’آپ کو کبھی سیاسی جماعت سے کوئی سروکار نہیں رکھنا چاہیے۔ دوسری جو بات آپ کو ذہن میں رکھنی چاہیے وہ یہ کہ آپ ملازم ہیں، حکمران نہیں ہیں تمام لوگوں کی شکایات خواہ وہ ہے بنیاد ہی کیوں نہ ہوں، آپ انہیں غور اور ہمدردی کے ساتھ سنیے اور ان کا فیصلہ کیجیے؟‘‘۔
قائداعظم نے اپریل 1941ء میں مدراس میں منعقدہ مسلم لیگ کے اجلاس سے خطاب میں فرمایا، اقلیتیں جہاں بھی ہوں ان کے تحفظ کا انتظام کیا جائے گا۔ میں نے ہمیشہ یقین کیا اور میں سمجھتا ہوں کہ میرا یقین غلط نہیں ہے کہ کوئی حکومت اور کوئی مملکت اپنی اقلیتیوں کو اعتماد اور تحفظ کا یقین دلائے بغیر کامیابی کے ساتھ ایک قدم بھی نہیں اٹھاسکتی۔ کوئی حکومت نا انصافی اور جانبداری کی بنیادوں پر کھڑی نہیں رہ سکتی اقلیت کے ساتھ علم و تشدد اس کی بقاء کا ضامن نہیں لے سکتا۔ اقلیتیوں میں انصاف و آزادی امن و سہولت کا احساس پیدا کرنا ہر انتخابی طرز حکومت کی بڑی آزمائش ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جب وقت آئے گا تو ہمارے ملکی خطوں کی اقلیتوں بھاری روایات، ثقافت اسلامی تعلیم سے نہ صرف انصاف و صداقت ملے گی بلکہ انہیں ہماری کریم النفس اور عالی ظرفی کا ثبوت بھی مل جائے گا۔
15جنوری 1948ء کو عید میلاد النبیؐ کے موقع پر کراچی بار ایسوسی ایشن کے استقبالیہ سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم محمد علی جناح نے کہا کہ کون کہتا ہے کہ پاکستان کے آئین کی اساس شریعت پر نہیں ہوگی جو لوگ ایسا کہتے ہیں وہ فیصلہ ہیں ہماری زندگی میں آج بھی اسلامی اصولوں پر اس طرح عمل ہوتا ہے جس طرح 1300سال پہلے ہوتا تھا‘‘ پھر ختم الرسل محمد رسول اللہؐ کی شان اقدس میں آتے ہوئے کہا کہ ’’آج ہم کروڑوں انسانوں کے قائد اور عظیم ترین انسانوں کے ممدوح خراج عقیدت پیش کرنے لیے جمع ہوتے ہیں جو ایک ب زرگ ترین معلم، مدبر اور قانون ساز تھے اور اس کے ساتھ ایک حکمران بھی، اسلام صرف چند رسوم، روایات اور مذہبی اصولوں کا نام نہیں بلکہ مسلمانوں کے سیاسی اقتصادی اور دیگر مسائل کی رہبری کے لیے ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اسلام کی بنیاد صرف ایک خدا پر ہے۔ انسان انسان میں کوئی فرق نہیں۔ مساوات آزادی اور بھائی چارہ اسلام کے مخصوص اصول ہیں۔ حضور نبی اکرمؐ کی زندگی اس زمانے کے لحاظ سے نہایت سادہ تھی۔ کاروبار سے لے کر حکمراں تک ہر معاملہ میں انہیں کامیابی حاصل ہوئی اور سچی بات تو یہ ہے کہ رسول اکرمؐ جیسا عظیم انسان دنیا نے کبھی پیدا نہیں کیا۔ انہوں نے 1300 سال پہلے ہی جمہوریت کی بنیاد رکھ دی تھی۔‘‘
لبرل اور سیکولر فکر رکھنے والے دانشور قائداعظم کی 11اگست کی تقریر کا حوالہ دیتے ہیں مذکورہ ارشادات میں اسلام کے نظام حیات ہونے اور اقلیتوں کے انسانی اور قانونی حقوق کے تحفظ کے بارے میں قائداعظم کا نقطہ نظر واضح ہے اس میں کوئی ابہام نہیں ہے وہ اس سوچ کر ہرگز تسلیم نہیں کرتے تھے کہ مذہب کا ریاستی امور سے کوئی تعلق نہیں ہے اور مذہب ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہے بعض دانشور حضرات مغرب کی ذہنی غلامی یا اسلام بیزاری کی وجہ سے ایسا کہتے ہیں۔ تحریک پاکستان میں ہر چھوٹے بڑے رہنما اور کارکن کی قربانیوں اور خدمات کے اعتراف کے حوالے سے یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ قرون باغ دہلی کے ٹیلر ماسٹر اور مسلم لیگ نیشنل گارڈ کے ساتھ ماسٹر الطاف حسین کو اللہ تعالیٰ نے آزاد مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان کا پہلا قومی پرچم تیار کرنے کی سعادت سے نوازا تھا۔ جون 1947ء میں جب آزادی کا جشن منانے کی تیاریاں ہو رہی تھیں تو قومی پرچم تیار کرنے کے سلسلے میں نظر سالار ماسٹر الطاف حسین پر پڑی اور انہیں یہ ذمہ داری سونپی گئی۔ ان دنوں امریکہ کے جریدے لائف میگزین کی صحافی نے بھی دہلی کا دورہ کیا اور آزادی کی تیاریوں کو عکس بندی، نوابزادہ لیاقت علی خان کی ہدایت پر نوجوان مسلم لیگی بیرسٹر محمد ثمین خان مس مارگریٹ بورک وہائیٹ کو قرون باغ کے علاقے میں ٹیلرنگ کی دکان پر لے گئے۔ جہاں مارگریٹ نے ماسٹر الطاف حسین کی نیشنل گارڈ کی وردی میں قومی پرچم سمیٹے ہوئے تصویر بنائی جو بعد میں 18اگست کو لائن میگزین میں شائع ہوئی پہلے پرچم ساز کی حیثیت سے ماسٹر الطاف حسین کو بڑا فخر تھا۔ 1967ء میں ان کے انتقال کے بعد کراچی میں مقیم ان کے بڑے بھائی ماسٹر افضال حسین پہلا پرچم ساز ہونے کے دعویدار بھی بنے اور کرامات حاصل کرنے کے لیے ان کا خاندان کوشاں رہا ماسٹر الطاف حسین کے بیٹے ظحور الحق اسے یہ کوشش کررہے ہیں۔ کئی بار سرکاری سطح پر تحقیقات بھی کل ہوچکی ہے۔ دستاویزی ثبوت کی بنیاد پر جس میں ماسٹر الطاف حسین کو پہلا قومی پرچم ساز تسلیم کیا گیا ہے۔ مگر سرکاری طور پر اب تک اس کا حتمی فیصلہ نہیں ہوسکا۔ ظہور الحسن کی صدر پاکستان، وزیراعظم، چیف جسٹس پاکستان اور مملکت خداداد پاکستان سے یہی گزارش ہے کہ ان کے خاندان کو مال و دولت مراعات سے کوئی غرص نہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے والد ماسٹر الطاف حسین کو پہلا قومی پرچم ساز ہونے کی جو سعادت بخشی تھی۔ اس کا سرکاری طور پر اعتراف کیا جائے۔ اسے قومی تاریخ کا حصہ بنایا جائے اور آئندہ نسلوں تک اس کی معلومات کو منتقل کرنے کے لیے تدریسی نصاب میں شامل کیا جائے۔ ان کی والدہ شکیلہ بیگم بھی اپنی زندگی میں دستاویزی ثبوت کے ساتھ مملکت کے ذمہ داروں کو آگاہ کرتی رہیں۔ بیرسٹر محمد ثمین خان پرچم سازی کے مرحلے کے عین شاہد تھے جنہوں نے باقاعدہ تعریفی سرٹیفکیٹ بھی جاری کیا تھا کہ ماسٹر الطاف حسین کو پہلے پرچم ساز کی سعادت حاصل ہوئی تھی۔ اب ماسٹر الطاف حسین ان کے خاندان کو اس قومی اعزاز سے سرکاری طور پر نوازنے میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ ان کے مطالبے کو بلا تاخیر پذیرائی ملنی چاہیے۔ ٭
٭٭٭٭٭