مفکر پاکستان علامہ اقبال نے دو قومی نظریا اجاگر کیا

0

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا حصول بہت بڑے معجزے کی حیثیت رکھتا ہے جس کی پوری دنیا میں مثال نہیں ملتی۔ جس طرح حصول و قیام پاکستان کے سلسلہ میں قائد اعظم کی بے پناہ خدمات کو تاریخ میں سنہری الفاظ میں یاد رکھا جائے گا اسی طرح مفکر پاکستان یا پھر مصور پاکستان کی بیش بہا خدمات کو بھی آنے والا مورخ فراموش نہیں کر سکے گا۔ حکیم الامت علامہ اقبالؒ نے 1930ء میں الٰہ آباد میں منعقدہ مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کی صدارت فرماتے ہوئے برعظیم پاکستان و ہند ایک الگ خطہ زمین کا تصور پیش کیا‘ جہاں مسلمان اپنے دین ومذہب‘ اپنی تہذیب و تمدن اور روایات کے مطابق زندگی بسر کر سکیں۔اس اعلان کے آٹھ سال بعد وہ 21 اپریل 1938ء کو خالق حقیقی سے جا ملے۔
مفکر پاکستان حضرت علامہ اقبال ؒ نے بستر علالت سے جو خط 11جون 1937ء کو قائد اعظم کو لکھا اس میں علامہ تحریر کرتے ہیں ’’میں آپ کی مصروفیات سے بخوبی آگاہ ہوں لیکن سمجھتا ہوں کہ ہند وستان میں آپ کی ذات ایسی ہے جس سے قوم کو یہ توقعات وابستہ کرنے کا حق ہے کہ مستقبل میں جو سیلاب آنے کا خدشہ ہے اس وقت صرف آپ ہی ملت کی رہنمائی کر سکتے ہیں ‘‘۔ دراصل حضرت علامہ اقبال ، قائد اعظم کی سیاسی بصیرت نہرو رپورٹ کے سلسلے میں پر کھ چکے تھے ، نہرو رپورٹ ایسے آئین پر مشتمل تھی جس میں جنوبی ایشیاء کے د س کروڑ مسلمانوں کو آزادی سے محروم رکھا گیا تھا ، اس کے مقابلے میں قائد اعظم نے چودہ نکات پیش کئے جو ’’جناح کے چودہ نکات ‘‘ کہلاتے ہیں ، ان نکات پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ تصور پاکستان کی ابتداء اسی سے ہوئی۔ کانگریس ان نکات کو ماننے پر تیار نہیں تھی اور مسلمانوں کو ان کے جائز سیاسی حقوق سے محروم کرنے پر تلی ہوئی تھی۔ لیکن قائد اعظم محمد علی جناح مسلمانوں کے ملی تشخص کا سودا کسی قیمت پر کرنے کے لئے تیار نہ تھے۔ 1940ء کے ایک اجلاس منعقدہ لاہور میں قائد اعظم نے خطاب کرتے ہوئے انگریزوں اور ہندوئوں پر واضح کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ہندو اور مسلمان دو الگ مذہبی فلسفوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے معاشرتی رواج الگ الگ ہیں۔ ان کا ادب الگ ‘ ایک دوسرے کے ساتھ شادی بیاہ کے ناتے نہیں کرتے۔ مسلمان الگ قوم ہیں اس لئے انہیں حق حاصل ہے کہ اپنا الگ قومی وطن بنائیں‘‘۔ اس دلیل کے بعد ہی مسلمانان بر صغیر نے علیحدہ وطن کے حوالے سے قرار داد منظور کی جسے قرار داد پاکستان کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس قرار داد نے جہاں بر صغیر کے مسلمانوں کو ایک واضح نصب العین دیا اور انہوں نے اپنے لئے ایک علیحدہ وطن کے قیام کے لئے جدوجہد کا آغاز کیا وہاں کانگریس‘ مہاسبھا بلکہ پوری غیر مسلم اکثریت اور انگریز اس قرار داد کی مخالفت پر تل گئے۔ مخالفین سرمائے کے انبار رکھتے تھے۔ اخبارات پر ان کی اجارہ داری تھی۔ پروپیگنڈے کا سامان تھا جبکہ ان کے مقابلے میں مسلمانان ہند غربت کی چکی میں پس رہے تھے۔ بے سر و سامانی کی کیفیت سے دو چار تھے مگر ان کے پاس قوت ایمانی تھی اور قائد اعظم جیسا عظیم مدبر تھا جس کی سیاسی بصیرت اور بھرپور مدبرانہ قیادت مسلمانوں کے لئے ایک عظیم سرمائے سے کسی طور کم نہ تھی۔ قائداعظم نے قوم کو عزم و حوصلہ دیا‘ مضبوط ارادہ دیا اور خود پامردی سے میدان عمل میں ڈٹ گئے جبکہ قوم نے ان کے عزم و حوصلے سے روشنی حاصل کرکے ثابت قدمی سے آزادی کے لئے جدوجہد شروع کی۔ کمیونل ایوارڈ ہو یا قرار داد پاکستان‘ کرپس مشن کی تجاویز ہوں یا ہندوستان چھوڑ دو کی تحریک‘ وزارتی مشن کی تجاویز ہوں یا 3جون 1947ء کا لارڈ مائونٹ بیٹن والا پلان‘ شملہ کانفرنس ہو یا گول میز کانفرنس‘ ہر جگہ قائد اعظم کی سیاسی بصیرت کامیاب ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ بالآخر انگریز اور کانگریس دونوں کو قیام پاکستان کے مطالبے کو تسلیم کرنا پڑا۔جب کہ قیام پاکستان پر قائد اعظم نے فرمایا کہ پاکستان بن گیا‘ اب روئے زمین کی کوئی طاقت اسے ختم نہیں کر سکتی۔ تاہم جن مسائل کا آج ہمیں سامنا ہے ان سے عہدہ برآہونے کے لئے ہمیں ایک بار پھر قائداعظم کے اصولوں‘ ایمان‘ یقین محکم اور تنظیم کو اپنانا پڑے گا۔ انہی پر عمل پیرا ہو کر ہم ترقی کی منزل حاصل کرسکتے ہیں۔
علامہ اقبالؒ قائد اعظمؒ کی نظر میں
23 مارچ 1940ء کو قائد اعظم محمد علی جناح نے لاہور میں منعقدہ عظیم الشان جلسہ میں الگ خطہ زمین کے مطالبہ کے طور پر ’’قرار داد پاکستان‘‘ منظور کرائی جس کے صرف ایک دن بعد 25مارچ 1940ء کو قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ نے یونیورسٹی ہال میں یوم اقبال کے سلسلہ میں منعقدہ تقریب میں تقریر کرتے ہوئے جن خیالات کا اظہار فرمایا انہیں پڑھ کر انسان ورطہ حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔ انہوں نے جس خطہ زمین کا مطالبہ ایک روز قبل کیا تھا اور اسے اپنا اور اسلامیان ہند کا مقصود و مطلوب قرار دیا تھا‘ اسے صرف اگلے ہی روز علامہ اقبال کی شخصیت کے مقابلہ میں ثانوی حیثیت قرار دے رہے تھے۔ قائداعظم معروف انگریز مورخ کار لائل کے قول کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر اقبال ہے تو پاکستان بھی ہے اور اگر اقبال ہاتھ سے جاتا رہا تو ملک بھی نہ رہے گا۔ اقبال میرے پاس موجود ہو گا تو ایک کیا کئی پاکستان تخلیق کئے جا سکتے ہیں اور اگر وہ موجود نہیں تو پھر کچھ نہیں‘‘۔دراصل قائد اعظم کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ اقبال جیسے مفکر‘ دانشور اور اہل قلب و نظر لوگ روز روز پیدا نہیں ہوتے جو قوموں کی تعمیر کرتے ہیں‘ جب قوم وجود میں آ جاتی ہے تو پھر وہ اپنے دست و بازو کی قوت سے ملک بھی حاصل کر لیتی ہے۔ اصل مسئلہ قوم کی تعمیر کا ہے جو سیاست دانوں کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ قوم کی تعمیر ہمیشہ مفکر اور ماہر تعلیم ہی کرتے ہیں۔ اسلامیان ہند کے بارے میں حکیم الامت نے جو خواب دیکھا‘ جو سوچا‘ اسے قائداعظم جیسے مدبر سیاست دان نے صرف سات سال کی عملی جدوجہد سے شرمندہ تعبیر کر دیا۔ علامہ نے اپنے بارے میں خود ہی کہہ دیا تھا
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
اور اسی مفہوم کو فارسی زبان میں یوں پیش کیا ہے
تاز بزم عشق یک دانائے راز آید بروں
مسلمانوں کیلئے الگ خطہ زمین کے حصول کے سلسلہ میں علامہ اقبال اور قائد اعظم میں مکمل یکجہتی اور ہم آہنگی موجود تھی دونوں کے درمیان ہم فکری ہم خیالی اور ربط باہمی موجود تھا۔ بقول علامہ اقبالؒ
ہیں ربط باہمی سے قائم نظام سارے
پوشیدہ ہے یہ نکتہ تاروں کی زندگی میں
دونوں زعماء کے درمیان اس ضمن میں مسلسل خطوط کا تبادلہ جاری رہا‘ یہ خطوط مطبوعہ صورت میں موجود ہیں اور حقیقت حال کے شاہد عادل ہیں۔ ان سے ان حضرات کے باہمی صلاح و مشورے اور افہام و تفہیم پر روشنی پڑتی ہے۔
25 مارچ 1940ء کو پنجاب یونیورسٹی کے یونیورسٹی ہال میں یوم اقبال پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا۔
’’اگرچہ میرے پاس وطن نہیں ہے لیکن اگر مجھے سلطنت مل جائے اور اقبال اور اس سلطنت میں سے کسی ایک کے انتخاب کا اختیار دیا جائے تو میں بلاتامل اقبال کو منتخب کروں گا۔‘‘
کتنا بڑا مقام ہے اور کسی قدر احترام ہے قائداعظم کی طرف سے علامہ اقبال کیلئے لاہور میں یوم اقبال منانے کی تقریب پر 9 دسمبر 1944ء کو قائداعظم کے بھیجے ہوئے پیغام کے الفاظ ہیں۔
’’اگرچہ اقبال آج ہم میں موجود نہیں لیکن اس کی غیرفانی شاعری برابر ہماری رہنمائی اور ہمت افزائی کرتی رہے گی۔ ان کے کلام سے ظاہر ہے کہ اسلامی تعلیمات سے اسے کس قدر وابستگی تھی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا سچا اور وفادار پیروکار تھا وہ ایک مسلمان تھا اول و آخر۔ وہ اسلام کا شارح تھا اور اسلام کی آواز۔ اقبال محض ایک مبلغ اور فلسفی ہی نہ تھا وہ شجاعت اور قوت عمل‘ استقلال اور خوداعتمادی کا علمبردار تھا اور سب سے بڑی بات یہ تھی کہ اسے خدائے تعالیٰ پر کامل بھروسہ اور یقین کامل تھا۔ قائداعظم کے اس پیغام سے نہ صرف یہ واضح ہو جاتا ہے کہ وہ علامہ کے بہت بڑے مداح تھے بلکہ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہ علامہ کے ان خیالات تصورات کو پاکستان میں عملی طور پر نافذ کرنے کے خواہاں تھے جو انہوں نے عہد حاضر کی جدید اسلامی ریاست کیلئے پیش کئے تھے۔ قائداعظم اس حقیقت سے بھی آگاہ تھے کہ علامہ کے افکار محض کسی شاعر کا شاعرانہ خواب نہیں بلکہ وہ عملی خاکہ تھے جو انہوں نے قرآن و سنت کی روشنی میں پیش کئے تھے۔
٭٭٭

٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More