سید نبیل اختر/ اسامہ عادل
سہراب گوٹھ مویشی منڈی میں اب تک 2 ہزار اونٹ فروخت کے لئے لائے گئے ہیں، جن میں سفید اور سیاہ اونٹ بھی شامل ہیں۔ ان اونٹوں کی قیمت 70 ہزار سے 7 لاکھ روپے تک طلب کی جا رہی ہے۔ منڈی میں اونٹ پر نقوش بنانے والے کاریگروں نے اس سال یہاں کا رخ نہیں کیا، جس کی وجہ سے اکلوتے کاریگر کی مانگ بڑھ گئی ہے۔ بیوپاری اونٹوں کیلئے پینے کے پانی کی کمی کا شکوہ کرتے نظر آئے۔ چونکہ گزشتہ برس کے مقابلے میں اونٹ کم لائے گئے ہیں، جس کے سبب اونٹ مہنگے داموں فروخت ہونے کا خدشہ ہے۔سہراب گوٹھ مویشی منڈی میں اونٹوں کے لئے داخلی دروازے یا پارکنگ سے دائیں طرف بکرا منڈی جاتے ہوئے فٹ پاتھ پر جگہ فراہم کی گئی ہے، جہاں اب تک 2 ہزار اونٹ تھر، سندھ کے علاقوں میرپور خاص اور نوشہرو فیروز کے علاوہ بلوچستان سے بھی لائے گئے ہیں، جن کی قیمتیں ان کی خوبصورتی اور وزن کے حساب سے مقرر کی گئی ہیں۔ سروے کے دوران معلوم ہوا کہ اونٹ کی قربانی سے قبل اس کی ٹرانسپورٹیشن، دیکھ بھال اور سب سے بڑھ کر اسے نحر (ذبح) کرنے کے مسائل کی وجہ سے اونٹوں کی فروخت میں کمی آئی ہے۔ سہراب گوٹھ میں لگنے والی اونٹوں کی منڈی میں اس بار سفید اور سیاہ اونٹ سندھ اور پنجاب سے لائے گئے ہیں، جبکہ گزشتہ برس خیبر پختون سے بھی اونٹ کراچی لائے گئے تھے اور اچھے داموں میں فروخت ہوئے تھے۔ مویشی منڈی میں موجود بیوپاریوں کے مطابق 2 دانتوں کے حامل اونٹ کی عمر زیادہ سے زیادہ 5 سال ہوتی ہے اور اسے جوان قرار دیا جاتا ہے۔ جبکہ اس سے زیادہ دانت ہونے پر اونٹ بوڑھا کہلاتا ہے اور اس کے گوشت کے ذائقے میں بھی فرق ہوتا ہے۔ پکانے کے دوران گوشت گلنے میں بھی زیادہ وقت درکار ہوتا ہے۔ اسی لئے بوڑھے یا زیادہ دانت والے اونٹ کی فروخت کم ہی ہوتی ہے۔ بیوپاری علی نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ وہ اس کاروبار سے دو دہائیوں سے منسلک ہے اور اس کے 20 سال کے تجربے کی روشنی میں کراچی میں اونٹوں کو نحر کرنے والے قصاب انتہائی کم ہیں، جس کی وجہ سے اونٹوں کی فروخت میں بھی ہر سال کمی واقع ہو رہی ہے۔ جبکہ اونٹ، بچھیا اور بیل کی قیمتوں میں اب کوئی زیادہ فرق نہیں رہا۔ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے ایک سے ڈیڑھ لاکھ روپے کا بیل و بچھیا خریدتے ہیں اور اسی قیمت میں اچھے اونٹ با آسانی مل جاتے ہیں۔ علی نے بتایا کہ اونٹ کا گوشت ذائقے میں دوسرے گوشت کے مقابلے میں نمکین ہوتا ہے، جسے گائے، بیل اور بکروں کی طرح زیادہ دن کے لئے محفوظ رکھنے کے بجائے عام طور پر تقسیم کر دیا جاتا ہے۔
سروے کے دوران مورو سے اونٹوں کو فروخت کرنے کراچی آنے والے شاہنواز سے بات کی گئی تو اس نے بتایا کہ وہ عید قرباں کیلئے مورو سے 16 اونٹ لے کر آیا ہے اور منڈی میں داخلے کے لئے فی اونٹ 15 سو روپے فیس ادا کی ہے۔ شاہنواز کا کہنا تھا کہ ’’میں گزشتہ 8 سال سے سہراب گوٹھ کی مویشی منڈی آرہا ہوں۔ میرے پاس موجود تمام اونٹ تھر کے ہیں اور ان کی قیمت 2 لاکھ روپے سے 3 لاکھ روپے تک ہے۔ مورو سے کراچی تک ٹرالے کے ذریعے اونٹ لانے پر کرائے کی مد میں 80 ہزار روپے کے اخراجات آئے ہیں‘‘۔ بات چیت کے دوران شاہنواز نے موسم کی تبدیلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اسے خدشہ ہے کہ بارش ہوتے ہی اس کے لئے مسائل کھڑے ہو جائیں گے۔ کیونکہ گزشتہ سال بھی بارش کے باعث منڈی میں بہت پانی جمع ہوگیا تھا اور نتیجتاً خریدار بھی کم آئے تھے۔ بارش کے باعث ہر طرف کیچڑ جمع ہو جاتی ہے اور اونٹ اس ماحول میں کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے۔ بارش کی وجہ سے اونٹوں میں خارش کی بیماری لگنے کا خدشہ بھی ہوتا ہے اور اس صورت میں اس کی فروخت درد سر بن جاتی ہے۔ شاہنواز نے شکوہ کیا کہ اس بار منڈی انتظامیہ یومیہ 5 لیٹر فی اونٹ کے حساب سے پانی فراہم کر رہی ہے، جبکہ ایک اونٹ روزانہ تقریباً 15 لیٹر پانی پیتا ہے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ منڈی میں ملنے والا پانی مکس ہے، جبکہ اونٹ میٹھا پانی پینے کا عادی ہوتا ہے۔ ایک سوال پر شاہنواز کا کہنا تھا کہ ’’دوسرے بیوپاریوں کی طرح مجھے بھی اونٹوں کو پانی پلانے کیلئے منڈی سے باہر لے جانا پڑرہا ہے، اور یہ کام کسی اذیت سے کم نہیں‘‘۔ وہیں بلوچستان سے سفید اونٹوں کا ریوڑ لانے والے غلام مصطفیٰ سے بھی گفتگو ہوئی۔ اس کے پاس 12 اونٹ سفید نسل کے بھی ہیں۔ غلام مصطفیٰ نے بتایا کہ وہ اپنے اونٹوں کو خوراک میں مونگ کی دال کا چھلکا اور چنا دے رہا۔ اونٹوں کی قیمت کے حوالے سے اس نے بتایا کہ اس کے پاس ایک لاکھ روپے سے 5 لاکھ روپے مالیت کے اونٹ ہیں، جو 10 سے 12 من تک وزنی ہیں۔ جبکہ ایک اونٹ کی خوبصورتی بڑھانے کے لئے اس پر نقش و نگاری بھی کروائی ہے، جس پر کاریگرکو 2 ہزار روپے ادا کئے گئے ہیں۔ نواب شاہ سے برکت اور نبی بخش بھی گزشتہ پانچ برسوں سے اونٹ سہراب گوٹھ کی مویشی منڈی لا رہے ہیں۔ ان سے بات کرنے پر پتا چلا کہ وہ اس بار 15 اونٹ لے کر ڈیڑھ ہفتہ قبل پہنچے ہیں۔ انہوں نے اونٹوں کو کراچی لانے والی گاڑی کو کرائے کی مد میں 70 ہزار روپے ادا کئے، جبکہ ایک اونٹ کے 15 سو روپے انٹری فیس بھی دی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سندھی نسل کا اونٹ اچھا ہوتا ہے اور یہ بھاری بھی ہوتا ہے۔ تھری اونٹ کی پہچان سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ اس کی ٹانگیں پتلی ہوتی ہیں۔ جبکہ سندھ کے دیگر علاقوں کے اونٹوں کے پاؤں موٹے ہوتے ہیں۔ بیوپاریوں کے مطابق ان کے پاس 2 دانت سے 7 دانت کے اونٹ موجود ہیں، جو 70 ہزار روپے سے شروع ہو کر 7 لاکھ روپے مالیت کے ہیں۔ ایک اونٹ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے برکت کا کہنا تھا کہ یہ سندھ کا اونٹ ہے، جس کی قیمت 2 لاکھ مقرر کی گئی ہے۔ اس نے اس کا وزن کانٹے پر تو نہیں دیکھا، لیکن یہ اونٹ تقریباً 12 من کا ہے۔ وہیں تھری نسل کا اونٹ بھی نظر آیا جس کا وزن بیوپاری کے مطابق 10 من ہے۔ اس اونٹ کے ایک لاکھ 90 ہزار روپے مانگے جا رہے ہیں۔ اونٹ کی خوراک میں مونگ کے پتے، گوار، بھوسا اور گڑ والا پانی شامل ہے، جو روزانہ دو وقت دیا جاتا ہے۔ سروے کے دوران مشاہدے میں آیا کہ اونٹنی کی قیمت 70 ہزار روپے تک ہے۔ اس کی رقم کم ہونے کی وجہ بیو پاری نے یہ بتائی کہ اونٹ کی بہ نسبت یہ پتلی اور کمزور ہوتی ہے۔ بیوپاری نبی بخش کے مطابق وہ ہر سال منڈی آتا ہے۔ بعض اوقات تمام مال عید سے قبل ہی فروخت ہو جاتا ہے اور عید گھر والوں کے ساتھ گزارتا ہے۔ اگر کبھی مال بچ جائے تو عید مویشی منڈی میں گزر جاتی ہے اور عید کے بعد مال سمیت واپس گھر لوٹتا ہے۔ اس نے بتایا کہ ایک وقت میں ایک اونٹ 20 سے 30 لیٹر پانی پیتا ہے، جبکہ بارش ہونے کی صورت میں خریدار منڈی کا رخ کم کرتے ہیں اور اس کی کی وجہ سے دام میں فرق آجاتا ہے۔ وہیں شہداد پور سے تعلق رکھنے والے علی خان اپنے ہمراہ 20 اونٹ فروخت کے لئے لائے تھے، جن میں سیاہ اونٹ بھی شامل تھا۔ علی کے مطابق سیاہ اونٹ کا وزن 22 من ہے اور اس کی قیمت 7 لاکھ روپے مقرر کی گئی ہے۔ علی نے کالے اونٹ کا نام مختار رکھا ہے اور ساتھ ہی دعویٰ کیا کہ وہ اونٹ کو مقررہ دام میں فروخت کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ علی نے بتایا کہ اس کے پاس 15 سفید اونٹ ہیں، جو کوہ مری نسل کے ہیں۔ منڈی میں اونٹوں کو خوبصورت بنانے کے کام پر مامور محمد خان سے بھی ملاقات ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ ’’میری رہائش دادو میں ہے اور میں گزشتہ 4 سال سے عید الاضحیٰ کے دنوں میں کراچی میں اس منڈی کا رخ کرتا ہوں، تاکہ یہاں اونٹوں پر نقش و نگاری کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پال سکوں۔ اونٹ پر نقش و نگاری ایک فن ہے، جو میں نے اپنے والد سے سیکھا ہے۔ ایک اونٹ پر نقش و نگار بنانے میں پورا دن لگ جاتا ہے۔ منڈی میں ایک اونٹ پر نقش و نگار بنانے کے عوض ایک ہزار روپے ملتے ہیں، جبکہ خریدار ی کے لئے منڈی آنے والے کام کو دیکھتے ہوئے اپنی خوشی سے اضافی رقم بھی دے جاتے ہیں۔ فن کوئی بھی ہو، اس کا شوق ہونے پر ہی سیکھا جا سکتا ہے۔ میں نے بہت کم عمری میں ہی یہ کام سیکھ لیا تھا‘‘۔ محمد خان نے بتایا کہ وہ پورا سال گاؤں میں کھیتی باڑی کرتا ہے، اور عید کے دنوں میں روزی روٹی کے لئے کراچی کا رخ کرتا ہے۔
٭٭٭٭٭