امت رپورٹ
سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی احتساب عدالت میں پیشی کے وقت مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے صدر سمیت تمام اہم پارٹی رہنما دانستہ غائب رہے۔ شہباز شریف کو نیب کیسز کے علاوہ دیگر مقدمات میں نااہل ہوجانے کا خوف ہے، جبکہ بشیتر لیگی ارکان اسمبلی اور بعض رہنما ہوا کا رخ دیکھ کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ احتساب عدالت کے باہر جو لیگی رہنما پہنچ سکے، انہیں اپنے اسیر قائد سے ملنے نہیں دیا گیا۔ یاد رہے کہ نواز شریف اڈیالہ جیل سے پہلی بار احتساب عدالت لائے گئے۔
ایک ایسے موقع پر جب قومی اسمبلی میں نواز لیگ کے 82 ارکان حلف اٹھانے جارہے تھے تو دوسری طرف بکتر بند گاڑی میں قید سابق وزیراعظم احتساب عدالت میں حاضری دے رہے تھے۔ ذرائع نے بتایا کہ مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے صدر اور نواز شریف کے چھوٹے بھائی شہباز شریف اسلام آباد میں موجود تھے، لیکن وہ چند لمحوں کے لیے بھی احتساب عدالت کے سامنے کھڑے نہیں ہوئے۔ جبکہ نومنتخب اراکین قومی اسمبلی میں سے ایک بھی ان کے استقبال کو نہیں پہنچا، حالانکہ وہ یہ الیکشن نوا زشریف کے نام پر ہی جیت کر قومی اسمبلی میں پہنچے تھے۔ اگر نواز لیگ کے اراکین قومی اسمبلی اتنی بڑی تعداد میں احتساب عدالت کے باہر پہنچ جاتے تو ان کے حلف پر کوئی اثر نہیں پڑتا، کیونکہ قواعد کے مطابق ارکان اسمبلی جب بھی اسمبلی میں پہلی بار داخل ہوں گے تو ان سے اسپیکر قومی اسمبلی پہلے حلف لے گا، پھر وہ کارروائی میں حصہ لیںگے۔ نواز شریف کے حق میں بڑھ چڑھ کر بولنے والے رانا ثناء اللہ، خواجہ آصف، احسن اقبال اور مریم اورنگ زیب نے بھی قومی اسمبلی کے حلف کو اہمیت دی اور احتساب عدالت کا رخ نہیں کیا کہ نواز شریف کو حوصلہ مل جاتا۔ مریم اورنگ زیب کی والدہ طاہرہ اورنگ زیب نواز شریف کو یاد کرتی رہیں، لیکن وہ بھی احتساب عدالت کی طرف نہیں گئیں۔ نومنتخب ارکان کے پاس تو شاید قومی اسمبلی کے اجلا س میں شرکت اور حلف برداری کا جواز ہو، لیکن ڈاکٹر طارق فضل چوہدری، عرفان صدیقی، صدیق الفاروق، مفتاح اسمعیل، مصدق ملک، مشاہد حسین اور دیگر سینیٹر حضرات بھی وہاں نہیں پہنچے۔ البتہ سینیٹر پرویز رشید، سینیٹر چوہدری تنویر، سینیٹر آصف کرمانی، سینیٹر سعدیہ عباسی کے علاوہ طارق فاطمی، انجم عقیل اور بیرسٹر ظفراللہ خان چند لوگوں کے ساتھ وہاں موجود تھے۔ انہوں نے نواز شریف کی آمد پر ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگائے، لیکن کمزور آواز میں۔ نواز شریف جس بکتر بند گاڑی میں آئے تھے، اس کے قریب بھی لیگی رہنمائوں کو پھٹکنے نہیں دیا گیا۔ ڈاکٹر طارق فضل کے ذرائع کا کہنا تھا کہ ان کے گھر پرچونکہ شام کو نواز لیگ کا پارلیمانی اجلاس تھا، اس لیے وہ اس کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ ایک اہم لیگی رہنما جو اپنی علالت کی وجہ سے احتساب عدالت کے سامنے حاضری نہ دے سکے، نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت نواز لیگ کا امتحان ہے۔ پیپلز پارٹی پر نواز لیگ زیادہ دیر تک اعتبار نہیں کر سکتی، کیونکہ پیپلز پارٹی اگرچہ قومی اسمبلی میں تعداد میں نواز لیگ سے کم ہے، مگر اس کی صوبہ سندھ میں حکومت بننے کے امکانات واضح ہیں۔ اس لیے وہ تحریک انصاف کے ساتھ اس طرح تصادم کی قائل نہیں جس طرح نون لیگ کی خواہش ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن کے پارلیمنٹ سے باہر احتجاج کے منصوبے کو پیپلز پارٹی نے مسترد کردیا اور مجبوراً نواز لیگ کو بھی اسے مسترد کرنا پڑا۔ یہی وجہ ہے کہ میاں نوازشریف کی احتساب عدالت کے سامنے کوئی احتجاجی حاضری بھی نہیں دی گئی۔ لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کے دیگر ارکان اس معاملے میں نون لیگ کا ساتھ نہیں دے رہے ہیں۔ نواز لیگ کی اسٹریٹ پاور نہیں ہے۔ اس کی وجہ انہوں نے یہ بیان کی کہ نون لیگ کا حامی زیادہ تر تاجر طبقہ ہے، جو سیاست کی خاطر اپنا کاروبار زیادہ دیر تک نہیں بند رکھ سکتا۔ جبکہ احتجاجی سیاست قربانی مانگتی ہے۔ جن جماعتوں کے پاس اسٹریٹ پاور ہے، وہ نواز لیگ سے سرمایہ مانگتی ہیں۔ پہلے یہ سرمایہ انہیں سرکاری وسائل سے دے دیا جاتا تھا، لیکن اب اپنی ذاتی جیب سے دینا مشکل نظر آتا ہے۔ ایک سوال پر ان لیگی کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی میں پہلے دن حلف اٹھانے کے بعد ارکان کو جو اسمبلی الائونس ملیں گے، وہ پہلے دن سے ہی ملیں گے۔ اگر یہ ارکان دوسرے دن حلف اٹھاتے تو ان کے الائونسز کا آغاز حلف اٹھانے والے دن سے ہوتا۔ اس لیے وہ یہ الائونسز نہیں چھوڑنا چاہتے تھے۔ ان لیگی رہنما کا یہ بھی کہنا تھا کہ شہباز شریف اپنے خلاف آنے والے مقدمات سے خوفزدہ ہیں، کیونکہ العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ کے نئے مقدمات میں بطور ملزم شہباز شریف کا نام بھی ہے۔ اس وقت شہباز شریف کا سب سے بڑا چیلنج ماڈل ٹاؤن قتل عام کی وہ جے آئی ٹی رپورٹ ہے، جس کی مزید تفتیش کے لیے پنجاب کی نئی حکومت پر دبائو ہوگا۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ احد چیمہ کی گرفتاری سے شہباز شریف کی پر مسلسل تلوار لٹک رہی ہے۔ اس کے علاوہ میٹرو بس ملتان، میٹرو پنڈی، اورنج لائن لاہور، نندی پور پاور پراجیکٹ، قائداعظم سولر پاور، صاف پانی کمپنی اور بہت سے منصوبوں میں سینکڑوں ارب روپے کے غبن کے الزامات میں اگر ایک بھی ثابت ہو گیا تو شہباز شریف بھی نا اہل ہو جائیں گے اور نواز لیگ جدہ جلا وطنی والی پوزیشن میں آجائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اب نواز لیگ کی ڈالی سے پرندے اڑنے کے لیے راستہ تلاش کر رہے ہیں، جس کی پہلی مثال یہ ہے کہ ان ارکان نے دانستہ طور پر نواز شریف کی جیل سے احتساب عدالت میں پہلی آمد کو نظر انداز کیا ہے۔
٭٭٭٭٭