کراچی رپورٹ ( عمران خان )کراچی پورٹ ٹرسٹ کی اربوں کی زمین پورٹ گرینڈ کے لئے ملی بھگت سے حاصل کرکے ادارے کو 35کروڑ کا نقصان پہنچایا گیا،سابق وفاقی وزیر پورٹ اینڈ شپنگ بابر غوری کے دور میں نیٹی جیٹی پل کے نیچے پورٹ گرینڈ کے نام سے فوڈ اسٹریٹ قائم کرنے کے لئے کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی ) کی 13ایکڑ زمین کوڑیوں کے مول حاصل کرنے والی کمپنی گرینڈ لیژر کارپوریشن (جی ایل سی ) نے لیز ملنے کے بعد قواعد کے بر خلاف زمین دیگر پرائیویٹ کمپنیوں کو کروڑوں روپے کرائے پر دی جس میں ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے سعید بھرم کے بھائی عارفین کو بھی ڈھائی کروڑ کرائے پر 10سال کے لئے زمین کا حصہ منتقل کیا گیا۔ جہاں غیر قانونی اور حدود سے تجاوز کرکے تعمیرات سے کروڑوں روپے منافع حاصل کیا گیا۔خسارہ برداشت کرنے کے باجود کے پی ٹی حکام نے کمپنی کے خلاف کارروائی نہیں کی اور نہ ہی عدالت سے رجوع کیا بلکہ خاموشی اختیار کرلی گئی۔ کے پی ٹی کی یہ زمین اوراراضی کے دیگر حصے ملی بھگت سے بابر غوری کے دست راست راشد اکرام بیگ کے ذریعے حاصل کئے گئے جنہیں بابر غوری کے ایم سی سےتبادلہ کرواکر اپنے ساتھ کے پی ٹی میں لے کر آئے اور بعد ازاں انہیں قواعد کے برخلاف منیجر اسٹیٹ کا عہدہ دے کر ادارے میں مستقل کردیا گیا۔وفاقی آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں اعتراض اور نشاندہی کئے جانے کے باجود ان کے خلاف اب تک کوئی ایکشن نہیں لیا گیا ،واضح رہے کہ چائنا کٹنگ اور ٹارگٹ کلنگ کے الزامات میں ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے سعید بھرم کو 2016میں انٹر پول کے ذریعے متحدہ عرب امارات سے حراست میں لیا گیا تھا جہاں سے اسکے بھائی عارفین کو بھی حراست میں لیا گیا جوکہ چنوں ماموں کا دست راست بتایا جاتا ہے تاہم عارفین کو دی جانے والی کے پی ٹی کی پورٹ گرینڈ کی اراضی پر تاحال کاروبار جاری ہے،ذرائع سے ملنے والی دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ ایف آئی اے کے حکام کی جانب سے جولائی 2018سے اس ضمن میں تحریری شکایت ملنے پر تحقیقات شروع کردی گئی ہیں اور پورٹ گرینڈ کے لئے کے پی ٹی سے لیز پر زمین حاصل کرنے والی کمپنی جی ایل سی کے افسران کے علاوہ متعلقہ حکام کو ریکارڈ کی طلبی اور بیانات کے لئے نوٹس ارسال کردئے گئے ہیں ،سابق وفاقی وزیر بابر غوری اور ان کے معاون سرکاری افسران کے علاوہ لیز پر زمین لینے والی کمپنی کے حکام کے ساتھ ہی اس کمپنی سے آگے کرائے پر زمین حاصل کرنے والے افراد کو بھی تحقیقات میں شامل کیا گیا ہے، ذرائع کے مطابق پورٹ گرینڈ پر قائم ریسٹورنٹس اور تفریحی مقامات پر ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے سعید بھرم کی ٹیموں کے پرانے کارکنوں کی بڑی تعداد سکیورٹی میں بھرتی کی گئی ہے جن میں سے بعض اب بھی ایم کیو ایم لندن سے رابطے میں ہیں اور یہاں سے ہونے والے منافع میں سے ایم کیو ایم لندن کو رقم بھجوائی جا رہی ہیں ،دستاویزات کے مطابق ایف آئی اے سندھ کے کرائم اینڈ اینٹی کرپشن سرکل کے انسپکٹر شہباز اس کیس کے انکوائری افسر ہیں تاہم بعض عناصر کی جانب سے اثر رسوخ استعمال کرکے تحقیقات کو متاثر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اسی مقصد کے لئے بعض افراد نے گزشتہ دنوں ایف آئی اے کے متعلق افسران سے ملاقات کی جس کے بعد تحقیقات کی رفتار سست ہونے کی وجہ سے کے پی ٹی کے بعض ایسے ملازمین جنہوں نے تحقیقات کے لئے ایف آئی اے حکام کو ثبوت فراہم کئے تھے، انہوں نے حقائق سے آگاہ کرنے کیلئے ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ساؤتھ نجف مرزا سے ملاقات کا وقت لیا ،ایف آئی اے میں یہ تحقیقات اس وقت شروع کی گئیں جب گزشتہ مہینے ایک تحریری درخواست ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ منیر احمد شیخ کے آفس میں جمع کروائی گئی، درخواست میں کہا گیا تھا کہ کراچی پورٹ ٹرسٹ کی اربوں روپے مالیت کی زمین پورٹ گرینڈ کے لئے کوڑیوں کے دام دینے کی تحقیقات کروائی جائیں کیونکہ یہ کے پی ٹی کی ملکیت ہے جسے غیر قانونی طریقے سے پرائیویٹ کمپنیوں کودیا گیا ہے،درخواست میں مزید کہا گیا کہ ایک کمپنی نے کوڑیوں کے مول زمین لینے کے بعد یہ زمین آگے مختلف کمپنیوں کو دی جنھوں نے شاپنگ مال ،انٹرٹینمنٹ ریزورٹ اور ریسٹورنٹ قائم کئے اور انہیں آگے دیگر مختلف پرائیویٹ کمپنیوں کو کرائے پر دے دیا گیا ،تحقیقات کے لئے دی جانے والی درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ اس زمین سے پرائیویٹ کمپنیاں کروڑوں روپے کما چکی ہیں اور اب بھی کما رہی ہیں تاہم کے پی ٹی اور ملکی خزانے کا بھاری نقصان ہو رہا ہے۔ تاہم دوسری جانب کے پی ٹی کے ملوث افسران کروڑوں روپے کی رشوت وصول کرچکے ہیں اور اب بھی لاکھوں روپے ماہانہ لے رہے ہیں، اس درخواست پر ایف آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر کمپلین عبدالحمید بھٹو کی جانب سے ایف آئی اے اینٹی کرپشن اینڈ کرائم سرکل کے ڈپٹی ڈائریکٹر کو لیٹر نمبر FIA/KZ/ACCK/COM- 1450/2018 B-13245-46پر مزید انکوائری کے لئے مراسلہ بھیجا گیا جس پر ایف آئی اے اینٹی کرپشن اینڈ کرائم سرکل کے انسپکٹر شہباز کو تحقیقات کی ذمے داری سونپی گئی ،ذرائع کے مطابق راشد اکرام بیگ نے اپنے بھائی فیصل بیگ کو بھی کے پی ٹی میں تعینات کرایا ۔اسی دوران 2004میں جی ایل سی یعنی گرینڈ لیژن کارپوریشن نامی کمپنی نے کے پی ٹی سے 13ایکڑ زمین 21سال کی لیز پر حاصل کی جس پر پورٹ گرینڈ قائم کرنے کے لئے ابتدائی تخمینہ 20کروڑ لگایا گیا اور اس کی تکمیل کی مدت 2009 تک مقرر کی گئی تاہم یہ منصوبہ دو برس کی تاخیر اور 80کروڑ روپے کی اضافی لاگت کے ساتھ ایک ارب روپے میں 2011میں مکمل ہوا جس کا افتتاح سابق گورنر سندھ عشرت العباد سے کروایا گیا ،ذرائع کے مطابق جی ایل سی کمپنی کی جانب سے 10سالہ کرائے کی مد میں کے پی ٹی کو 300 ملین یعنی 30کروڑ روپے ادا کرنے تھے جبکہ جی ایل سی نے قواعد اور معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مزید آگے مختلف پرائیویٹ کمپنیوں کو اس زمین کے مختلف حصے کرائے پر دئے جس میں سعید بھر م کے بھائی عارفین کے گروپ کی کمپنی کو بھی زمین کا ایک حصہ 25کروڑ 10لاکھ روپے پر دس سالہ کیلئے کرائے پر دیا گیا ۔اس کے بعد یہاں بھی چائنا کٹنگ کی گئی اور اس کے لئے اس وقت کے منیجر اسٹیٹ اور ان کے بھائی کی بھر پور معاونت حاصل کی گئی، ایف آئی اے ذرائع کے مطابق ابتدائی طور پر ایف آئی اے اے سی سی سرکل کے اسسٹنٹ ڈپٹی ڈائریکٹر راشد خانزادہ نے بھی انکوائری کی جس کے دوران معلوم ہوا کہ پورٹ گرینڈ کی اراضی کی لیز اور تعمیرات کے وقت ہونے والے معاملات میں کے پی ٹی کے متعلقہ حکام کی جانب سے قواعد اور ضوابط کی سنگین خلاف ورزیاں کی گئیں اس کے لئے نہ تو اشتہارات دئے گئے اور نہ ہی دیگر کمپنیوں سے بولیاں حاصل کی گئیں ،ذرائع کے مطابق پورٹ گرینڈ پر کام کرنے والی کمپنی کی جانب سے نہ تو 10سالہ کرائے کی مد میں 300ملین دئے گئے اور نہ ہی 2014میں پہلی دہائی ختم ہونے کے بعد اگلی دہائی کا کرایہ ادا کیا گیا تاہم آگے کرائے پر جگہ حاصل کرنے والی کمپنیوں سے کرایہ وصول کیا جاتا رہا ،قواعد کے برخلاف کے پی ٹی میں لائے گئے منیجر اسٹیٹ راشد اکرام بیگ بابر غوری کے جانے کے بعد اس عہدے سے ہٹ گئے اور اس وقت یہ کے پی ٹی میں ہی مستقل طور پر ضم ہوگئے ہیں ان کے خلاف 2014میں وفاقی آڈیٹر جنرل کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ میں کے پی ٹی کے دیگر دو افسران فیصل مسعود ،آصف افتخار کے ساتھ شدید اعتراض اٹھایا گیا کہ راشد اکرام بیگ اور ان دونوں افسران کو کے پی ٹی میں نہ صرف قواعد کے برخلاف مستقل کیا گیا بلکہ ان کو خلاف ضابطہ ترقیاں دی گئیں اس کے علاوہ انہیں بھاری مراعات دی گئیں جس کی وجہ سے ادارے کو نقصان برداشت کرنا پڑا تاہم اس رپورٹ کو نظر انداز کردیا گیا اور اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا ۔