اقبال اعوان
لانڈھی بھینس کالونی کی مویشی منڈی میں گندگی کے ڈھیر اور آلودہ پانی کے باعث روزانہ 10 سے زائد چھوٹے بڑے جانور مرنے لگے۔ قربانی کے جانوروں میں منہ اور کھر، ڈائریا، بخار اور دیگر بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ جبکہ سرکاری سطح پر ویکسی نیشن کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے کانگو وائرس کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے۔ دوسری جانب نجی ویٹرنری ڈاکٹروں کی چاندی ہوگئی ہے۔ ادھر سہولیات نہ ملنے پر مشتعل بیوپاری بارش نہ ہونے کی دعا مانگ رہے ہیں کہ ان کے بیشتر جانور کچرے کے ڈھیروں پر کھڑے ہیں۔ اگر ایسے میں بارش ہو گئی تو وبائیں پھیلنے سے قیمتی جانور چند گھنٹے میں موت کے منہ میں جا سکتے ہیں۔
بھینس کالونی مویشی منڈی میں دو لاکھ سے زائد چھوٹا بڑا جانور آچکا ہے۔ تاہم خریداروں کا رش نہیں بڑھ سکا۔ منڈی میں لوٹ مار کا بازار لگا ہے۔ جبکہ جرائم روکنے میں پولیس ناکام ہے۔ ادھر سندھ حکومت کا محکمہ صحت کئی روز سے کانگو وائرس پھیلنے کے خطرے کا الرٹ جاری کر رہا ہے۔ تاہم سندھ حکومت اور بلدیاتی اداروں نے شہر کے انٹری پوائنٹس پر جانوروں کو چیک کرنے کا سلسلہ شروع کیا اور نہ ہی مویشی منڈیوں میں صفائی اور جراثیم کش ادویات کا اسپرے کیا جا سکا ہے۔ بارشیں سر پر ہیں، تاہم اس کے باوجود کوئی اقدامات نہیں کئے گئے۔ مویشی منڈیوں میں سیوریج اور بارش کے پانی کی نکاس کا بھی کوئی انتظام نہیں۔
لانڈھی مویشی منڈی جو سال بھر لگنے والی ’’کٹائو‘‘ جانوروں کی منڈی ہے، وہاں بقرعید کے حوالے سے لگ بھگ تین سے چار لاکھ جانور اضافی آتا ہے۔ اب یہاں انتظامیہ کی جانب سے بیوپاریوں کو سہولیات نہ دینے کے علاوہ خریداروں سے چنگی کے نام پر بھی رقم وصول کی جا رہی ہے۔ دوران سروے دیکھا گیا کہ بھینس کالونی مویشی منڈی میں بکرے، دنبے اور بڑے جانور سڑکوں، گلیوں اور فٹ پاتھوں پر باندھے جا رہے ہیں۔ مویشی
منڈی میں گوبر، چارے اور دیگر کچرے کی کئی فٹ تہ جم چکی ہے، جس کے اوپر جانور باندھے گئے ہیں۔ ہر طرف گندگی کے باعث بیوپاری اور خریدار پریشان دکھائی دیئے۔ بلدیاتی ادارے منڈی میں آنے والے جانوروں سے لاکھوں روپے چنگی کی مد میں کما رہے ہیں، لیکن نہ تو کچرا اٹھایا جارہا ہے اور نہ ہی صفائی کا کوئی سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔
منڈی میں جانوروں کی تعداد بڑھنے کے ساتھ ہی بیماریاں بھی پھیل رہی ہیں۔ بڑے جانوروں گائے، بیل اور بھینس میں منہ اور کھر۔ دنبے اور بکروں میں ڈائریا، بخار اور نزلے کی بیماریاں پھیل چکی ہیں۔ منڈی میں بڑے بڑے دعوئوں کے باوجود کوئی سرکاری ویٹرنری کیمپ نہیں لگایا گیا ہے۔ یہاں لگ بھگ 20 کے قریب اتائی ڈاکٹر بھی جیب گرم کر رہے ہیں۔ بیماریوں کے باعث یومیہ دس سے زائد چھوٹے بڑے جانور ہلاک ہو رہے ہیں۔ بیوپاریوں کا کہنا ہے کہ ابھی بارش نہیں ہوئی ہے اور بیماریاں پھیل چکی ہیں۔ اگر صورتحال یہی رہی تو خریدار منڈی میں نہیں آئیں گے اور بھاری مالیت کے جانور بھی مر جائیں گے۔ بیوپاری اس حوالے سے کئی بار نیشنل ہائی وے پر احتجاج کر چکے ہیں کہ انہیں سہولتیں دی جائیں۔
’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے ایک بیوپاری حاجی جمیل قریشی کا کہنا تھا کہ ’’منڈی میں دو لاکھ سے زائد جانور آچکا ہے۔ جس میں زیادہ بکرے اور دنبے ہیں۔ انہیں منڈی کے اندر اور متصل پلاٹوں، فٹ پاتھوں، سڑکوں اور گلیوں میں باندھا جا رہا ہے۔ اس بار گندگی بہت ہے، کئی کئی روز سے گوبر، چارہ اور دیگر کچرا نہیں اٹھایا گیا۔ ہم نے 20 ہزار روپے دے کر اپنے حصے کے باڑے میں صفائی کراکے کچرا اٹھوایا ہے‘‘۔ بیوپاری عمر دراز کا کہنا تھا کہ منڈی میں لوٹ سیل لگی ہوئی ہے۔ اس بار بیوپاری بہت پریشان ہیں اور دعائیں کر رہے ہیں کہ بارش نہ ہو ورنہ جانور بیمار ہو کر مر جائیں گے۔ بیوپاری کاشف کا کہنا تھا کہ پینے کا پانی بڑا مسئلہ ہے۔ بیوپاری علی حسن کا کہنا تھا کہ سرکاری ویٹرنری ڈاکٹروں کا دور دور تک کوئی پتا نہیں ہے۔ سرکاری اسپتال جائیں تو وہاں دوائیوں کا فقدان ہے۔ بیوپاری الیاس کا کہنا تھا کہ بلدیاتی اداروں کی لوٹ مار اور سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے بیوپاری پریشان ہوکر جانوروں کے ریٹ بڑھا رہے ہیں اور اس بار مال 40 فیصد مہنگا فروخت کیا جارہا ہے۔ بیوپاری ادریس کا کہنا تھا کہ اس بار منڈی میں بلدیاتی اداروں کی جانب سے بہت زیادہ لوٹ مار ہے اور کوئی کام بھی نہیں کرایا گیا ہے۔ بیوپاری عبدالرحیم کا کہنا تھا کہ کئی بیوپاری یہاں سے اپنے جانور دوسری منڈی میں لے جارہے ہیں۔ جانوروں کے ایک اتائی معالج ڈاکٹر شنکر کا کہنا تھا کہ منڈی کے اندر لگ بھگ 20 اتائی ڈاکٹر کام کررہے ہیں۔ زیادہ تر جانوروں کے ڈاکٹروں نے کمپاؤنڈر اور ہیلپرز بٹھا دیئے ہیں۔