کراچی(رپورٹ: راؤ افنان)سندھ یونیورسٹی انتظا میہ نے بغیر بجٹ کے 34کروڑ 90لاکھ روپے سے زائد کی رقم پھونک ڈالی، شیخ الجامعہ ایمرجنسی پاور کی آڑ میں مالی معاملات پر قابض ہیں، جبکہ فیسوں کی رقم تنخواہ اور پنشن کی ادائیگی کیلئے استعمال ہونے کا انکشاف ہوا ہے، گزشتہ سال سے تاحال فنانس کمیٹی کا اجلاس ہی نہیں ہوا،رواں سال مارچ کے بعد سینڈیکیٹ کا اجلاس بھی طلب نہیں کیا گیا، دوسری مد کیلئے مختص رقم ایک اکاؤنٹ سے دوسرے میں ڈال کر استعمال کی جارہی ہے۔ تفصیلات کے مطابق سندھ یونیورسٹی فنانس کمیٹی، سنیڈیکیٹ اور سینیٹ کمیٹی سے منظور شدہ بجٹ کے بغیر چلائی جا رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق رواں مال سال 19-2018کا بجٹ پیش ہی نہیں کیا گیا۔ معلوم ہوا ہے کہ جامعہ کی فنانس اینڈ پلاننگ کمیٹی کا اجلاس گزشتہ سال مئی میں ہوا تھا، جس کے بعد سے تاحال فنانس کمیٹی کا کوئی اجلاس ہی نہیں بلایا گیا، جامعہ سینڈیکیٹ کا آخری اجلاس رواں سال 26مارچ میں ہوا تھا، جبکہ 2013کے بعد سے سینیٹ کا اجلاس ہی نہیں ہو پایا، جسکی وجہ سے جامعہ میں مالی و انتظامی بے ضابطگیوں پر سینیئر اساتذہ اسکی نشاندہی یا زیر بحث لانے سے قاصر ہیں۔ اعلیٰ حکومتی افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ جامعہ کے بجٹ اور پلاننگ کے معاملات فنانس اینڈ پلاننگ کمیٹی میں لائے جاتے ہیں، جسکے بعد اسے سینیڈیکیٹ میں پیش کیا جاتا ہے جبکہ بجٹ کی منظوری سینیٹ سے لی جاتی ہے تاہم یونیورسٹی کا بجٹ 2013سے شیخ الجامعہ ایمرجنسی پاور کے نام پر سینڈیکیٹ سے منظور کراتے ہیں اور اس پر کوئی مخالفت اس لئے نہیں آتی تھی کیونکہ سینیڈیکیٹ کی کابینہ میں اراکین بھی منظور نظر ہی ہوتے تھے، تاہم سندھ یونیورسٹیز بل 2018کے بعد سے سینڈیکیٹ میں مخصوص اراکین کو اب صوبائی حکومت نامزد کیا کرے گی، جس سے جامعہ انتظامیہ کی من مانیاں کسی حد تک ختم ہوجائیں گی۔ جامعہ ذرائع کے مطابق جامعہ انتظامیہ ماہانہ اخراجات 27کروڑ 90لاکھ روپے ظاہر کرتی ہے، جس میں 6ہزار اساتذہ، تدریسی اور غیر تدریسی عملے کی ماہانہ تنخواہ کا تخمینہ 23کروڑ 50لاکھ ہے جبکہ جامعہ انتظامیہ عیاشی، یوٹیلٹی بلز، پنشن اور دیگر مد میں 44کروڑ سے زائد کی رقم خرچ کر ڈالتی ہے۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ شیخ الجامعہ فتح محمد برفت نے بغیر بجٹ منظوری کے لیو انکیشمنٹ کی ساڑھے 7 کروڑ کی دوسری قسط 13سو سے زائد اساتذہ، افسران اور ملازمین کو جاری کردی ہے جبکہ اس سے قبل عید الفطر کے موقع پر بھی ساڑھے 7کروڑ کی رقم جاری کی گئی تھی۔ دوسری جانب انکشاف ہوا ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے تنخواہوں کی ادائیگی کیلئے بغیر فنانس کمیٹی کی منظوری کے 10کروڑ 10لاکھ روپے جاری کئے ہیں۔ جامعہ کے دستاویزات کے مطابق تنخواہ ادائیگی کیلئے سیلف فنانس، انرولمنٹ اور ایم فل ایڈمیشن فیس سے 5کروڑ 70لاکھ روپے ریکرنگ اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کئے گئے جبکہ جامعہ کے دیگر اخراجات کیلئے اضافی ساڑھے4کروڑ بھی نکالے گئے، جس کی منظوری سپرنٹنڈنٹ، چیف اکاؤنٹنٹ اور شیخ الجامعہ نے 25اور 26 جون 2016کو دستخط کے ذریعے دی۔ دستاویز کے مطابق سندھ یونیورسٹی جامشورو، حیدرآباد کے اکاؤنٹ میں 25جون 2018تک 21کروڑ 51لاکھ 25ہزار روپے موجود ہیں، جو جولائی 2018کی تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگی کیلئے کافی نہیں ہیں، لہٰذا جامعہ کو اس مد میں ادائیگی کیلئے 23کروڑ 50لاکھ روپے درکار ہیں۔ جسکے مطابق ایچ بی ایل برانچ جامشورو کے اکاؤنٹ نمبر 00720040001001میں 13 کروڑ، ایچ بی ایل برانچ حیدر آباد کے اکاؤنٹ نمبر 00697900246001میں 5کروڑ، ایچ بی ایل برانچ حیدر آباد کے اکاؤنٹ نمبر 00697900246101 میں 4 کروڑ اور این بی پی جامشورو کے اکاؤنٹ نمبر NIDA-2-0 میں ڈیڑھ کروڑ روپے کی ضرورت ہے تاکہ جون 2018کی تنخواہوں کی ادائیگی ممکن ہو سکے۔ جامعہ انتظامیہ نے تنخواہوں، پنشن اور یوٹیلٹی بلز سمیت سمیت دیگر اخراجات کی ادائیگی کیلئے 6 کروڑ روپے سیلف فنانس،انرولمنٹ اور ایڈمیشن اکاؤنٹ سے ٹرانسفر کرنے کی درخواست کی جبکہ تنخواہ کی ادائیگی کیلئے ایچ بی ایل سندھ یونیورسٹی جامشورو برانچ سے 5کروڑ 70لاکھ روپے نکالے گئے، جس میں سے سیلف فنانس (مارننگ) کے اکاؤنٹ نمبر 00720040002901 سے 2کروڑ 56لاکھ 38ہزار نکالے گئے۔ اسی طرح انرولمنٹ کے اکاؤنٹ نمبر 00727902591201 سے ایک کروڑ 43لاکھ 59ہزار روپے اور ایم فل و پی ایچ ڈی کے اکاؤنٹ نمبر 00727901768801 سے 2کروڑ 37لاکھ 16ہزار نکالے گئے۔ اسکے علاوہ جون 2018کی تنخواہوں و پنشن ادائیگی اور دیگر اخراجات کی مد میں یونیورسٹی کے ریکرنگ اکاؤنٹ نمبر 00720040001001میں 4کروڑ 40لاکھ منتقل کئے گئے، جو یونیورسٹی کے سیلف فنانس اکاؤنٹ نمبر 00720040002901سے ایک کروڑ ، انرولمنٹ اکاؤنٹ نمبر 00727902591201 سے ایک کروڑ 40لاکھ اور ایم فل و پی ایچ ڈی اکاؤنٹ نمبر 00727901766801 سے 2کروڑ روپے منتقل کئے گئے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس طرح جامعہ انتظامیہ 10کروڑ روپے 10لاکھ روپے بغیر فنانس کمیٹی اور سینڈیکیٹ کی منظوری کے تنخواہ کی ادائیگی کی مد میں نکال چکی ہے جو کہ غیر قانونی ہے کیونکہ سیلف فنانس کے اکاؤنٹ سے رقم قانون کے مطابق صرف تدریسی اور ریسرچ کے معاملات کیلئے خرچ کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح دوسرے اکاؤنٹ سے رقم بغیر فنانس کمیٹی کے منظوری سے نکالنا غیر قانونی اقدام ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ شیخ الجامعہ ایمرجنسی پاور کے تحت سارے اقدام خود کر رہے ہیں جس سے جامعہ کا مالی خسارہ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے اور آئندہ ماہ کی تنخواہوں اور دوسری ادائیگیوں کیلئے بینک سے قرضہ لینے پر غور کیا جا رہا ہے۔ ذرائع سے مزید معلوم ہوا ہے کہ جامعہ کی فنانس کمیٹی کا گزشتہ سال سے تاحال کوئی اجلاس طلب نہیں کیا گیا، اس حوالے سے صوبائی محکمہ خزانہ کی جانب سے بھی پوچھا نہیں گیا۔ خبر پر موقف دیتے ہوئے وائس چانسلر فتح محمد برفت کا کہنا تھا کہ سینڈیکیٹ کی مدت ختم ہوگئی تھی اور نئی سینڈیکیٹ کے اراکین کیلئے نام وزیر اعلیٰ کو دے رکھے ہیں، اس وجہ سے بجٹ سینیڈیکیٹ میں نہیں لایا جا سکا۔ ان کا کہنا تھا کہ جامعہ کی مالی حالت بہت بہتر ہے اور یہ ساری باتیں من گھڑت ہیں کہ جامعہ کو خسارے کا سامنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وائس چانسلر کو اختیار ہے کہ وہ جامعہ کی سیونگ سے رقم خرچ کرسکے چاہے تنخواہوں کیلئے سیلف فنانس اکاؤنٹ سے رقم نکالی جائے۔