مرزا عبدالقدوس
جماعت اسلامی تحریک انصاف سے مزید فاصلے نہیں بڑھانا چاہتی۔ یہی سبب ہے کے جماعت کا واحد ووٹ وزارت عظمیٰ کے امیدوار شہباز شریف کو نہیں دیا گیا۔ جماعت اسلامی کے ذرائع نے بتایا کہ ایم ایم اے کی عاملہ اور سربراہی اجلاس میں بھی شہباز شریف کو ووٹ دینے کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ یہ متحدہ اپوزیشن کا فیصلہ تھا، جسے مجلس عمل کے فورم پر نہیں لایا گیا۔ البتہ چونکہ ڈپٹی اسپیکر کے امیدوار کا تعلق ایم ایم اے کی جماعت سے تھا، اس لئے جماعت اسلامی نے اسے ووٹ دیا۔ ان ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ جماعت اسلامی نے متحدہ مجلس عمل میں رہتے ہوئے غیر فعال کردار ادا کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ کسی الزام سے بچنے کیلئے علیحدگی کا اعلان نہیں کیا گیا۔ جماعت اسلامی کی قیادت کو الیکشن نتائج کے بعد بخوبی اندازہ ہو گیا ہے کہ جماعت کے اندر جے یو آئی سے اتحاد نہ کرنے کی جو آوازیں آرہی تھیں، ان پر توجہ دینی چاہئے تھی۔ جماعت اسلامی کے ذرائع کے مطابق اگر کبھی مولانا فضل الرحمان نے ایم ایم اے کا اجلاس طلب کیا تو اپنا نقطہ نظر اصولی بنیادوں پر کھل کر بیان کیا جائے گا اور اتحاد برقرار رہنے یا ٹوٹ جانے کے خطرے کو پس پشت ڈال کر اپنے موقف پر قائم رہا جائے گا۔
جماعت اسلامی کے ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمان نے بطور صدر ایم ایم اے، جماعت اسلامی اور دیگر اتحادی جماعتوں کی مشاورت کے بغیر قومی و صوبائی اسمبلی کی مخصوص نشستوں کی ترجیحی لسٹ الیکشن کمیشن کو بھجوائی، جس پر جماعت اسلامی نے خاص طور پر احتجاج کیا۔ بعد ازاں مولانا فضل الرحمان نے جماعت اسلامی کی قیادت کو یقین دہانی کرائی کہ الیکشن کے بعد آئندہ کے سیاسی فیصلوں میں جماعت اسلامی کی اس جائز شکایت کا ازالہ کریں گے، لیکن اس اتحاد کی کامیابی کے حوالے سے نتائج اتنے مایوس کن تھے کہ پھر کسی سیاسی فیصلے کی ضرورت ہی نہ رہی اور پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کرنے یا حلف اٹھانے نہ اٹھانے کے حوالے سے جو بھی فیصلے ہوئے فضل الرحمان نے سینیٹر و امیر جماعت سراج الحق کو بھی اعتماد میں نہیں لیا۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی کے امیر کو اوپن فورم پر یہ کہنا پڑا کہ وہ حلف نہ اٹھانے کے فیصلے کے حق میں نہیں اور پی ٹی آئی کو اس کے وعدوں کے مطابق ریاست مدینہ کے قیام کے لیے وقت دینا چاہئے۔ ان ذرائع کے مطابق جماعت اسلامی اپنا واحد ووٹ شہباز شریف کو دے کر پی ٹی آئی سے اپنے سیاسی فاصلے مزید نہیں بڑھانا چاہتی تھی۔ الیکشن سے پہلے ایم ایم اے میں جاکر اسے جو نقصان ہوا، وہ اس کا ازالہ کرنے کے لیے ایک جانب اپنی تنظیم پر توجہ دے گی تو دوسری جانب پرانے اتحادی عمران خان سے فاصلے کم کرنے کی کوشش کرے گی۔
ذرائع کے بقول سینیٹر سراج الحق پر جماعت کے اندر سے اب خاصا دباؤ ہے کہ انہوں نے عجلت میں ایم ایم اے بحال کر کے غلط فیصلہ کیا، جس کا سراسر نقصان جماعت اسلامی کو ہوا۔ شوریٰ کے اجلاس میں سراج الحق کے ممکنہ استعفے کی خبریں بھی چلتی رہیں۔ تاہم اب انہوں نے جماعت کے اندر کے اس گرم ماحول کو ٹھنڈا کرنے کے لیے پروفیسر محمد ابراہیم کی سربراہی میں ایک پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دے دی ہے، جو جماعت اسلامی کی نظریاتی، تنظیمی، دعوت اور تربیت کے کام کے حوالے سے پہلے سے موجود تجاویز پر غور کرے گی۔ اس میں نئی تجاویز شامل کرکے جماعت کی مقبولیت اور اس کے کام کو وسعت دینے کی حکمت عملی مرتب کی جائے گی۔ جماعت کی اندرونی اصلاحات کے حوالے سے بھی تجاویز پر مبنی جامع رپورٹ ایک ماہ کے اندر مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس میں پیش کر دے جائے گی۔ اس کمیٹی میں پروفیسر محمد ابراہیم کے علاوہ حافظ محمد ادریس، مولانا عبدالحق ہاشمی، ڈاکٹر اقبال خلیل اور شاہد ہاشمی کے نام شامل ہیں۔ ان میں سے اکثر لوگ جماعت میں اہم عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔ سابق سینیٹر پروفیسر محمد ابراہیم سابق امیر خیبر پختون رہے اور اب مرکزی نائب امیر ہیں۔ حافظ محمد ادریس سابق امیر صوبہ پنجاب اور اب مرکزی نائب ہیں۔ مولانا عبدالحق ہاشمی امیر جماعت اسلامی بلوچستان ہیں۔ جبکہ ڈاکٹر اقبال خلیل اور شاہد ہاشمی مرکزی مجلس عاملہ کے رکن ہیں۔ جماعت اسلامی کے ایک ذمہ دار نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر مذکورہ بالا کمیٹی بزرگ قائدین کی بجائے جو اپنی توانائیاں جماعت اسلامی کو فراہم کر چکے ہیں، مجلس عاملہ کے نسبتاً کم عمر اور نوجوان ارکان پر مشتمل ہوتی تو یہ زیادہ بہتر فیصلہ ہوتا اور اس کے نتائج زیادہ مثبت ہو سکتے تھے۔ کیونکہ آنے والے دنوں میں ان نوجوانوں نے ہی ان سفارشات اور تجاویز پر عمل بھی کرنا ہے۔
’’امت‘‘ نے جب جماعت اسلامی کے مختلف امور پر بات چیت کیلئے پروفیسر محمد ابراہیم سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ’’الیکشن نتائج کے بعد اب اس اتحاد ایم ایم اے کی کوئی افادیت نظر نہیں آرہی، لیکن فی الحال ہم اس سے الگ نہیں ہو رہے اور اس کے فیصلوں کے پابند ہیں۔ شہباز شریف کو ووٹ دینے کا فیصلہ چونکہ ایم ایم اے فورم پر نہیں ہوا تھا، اس لئے ہم اس کے پابند نہیں تھے‘‘۔ پروفیسر ابراہیم نے تصدیق کی کہ ’’متحدہ مجلس عمل میں شامل ہونے پر جماعت کے اندر غصہ موجود تھا اور اب بھی مایوسی ہے۔ مخصوص نشستوں کے حوالے سے بھی مناسب فیصلے نہیں ہوئے۔ لیکن یہ سب اب ماضی کی باتیں ہیں۔ فی الحال ہماری توجہ اپنے نظریے، دعوت، تنظیم اور تربیت کے امور پر ہے کہ کس طرح ماضی کی غلطیوں سے سیکھ کر نئے اقدامات کئے جائیں۔ اس حوالے سے ہم تجاویز تیار کریں گے اور کوشش کریں گے کہ ایک ماہ کی مقررہ مدت میں یہ کام کرلیں۔ اس سلسلے میں کمیٹی کا پہلا اجلاس یکم ستمبر کو منصورہ میں ہوگا‘‘۔ ایک سوال پر پروفیسر محمد ابراہیم کا کہنا تھا کہ ’’اس الیکشن سے پہلے جماعت کی پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہوئے جو لوگ الگ ہوئے تھے، ان سے بھی ہم رابطہ کریں گے اور ان کو واپس لائیں گے‘‘۔ اسی کمیٹی کے ایک رکن ڈاکٹر اقبال خلیل نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’جماعت کے اندر اصلاحات کی ضرورت پہلے سے محسوس کی جارہی تھی، لیکن الیکشن نتائج کے بعد اس کا احساس پہلے سے زیادہ ہوا ہے۔ ایم ایم اے کو انتخابی مہم چلانے کا وقت کم ملا اور ہمارا یہ تجربہ اچھا نہیں رہا۔ لیکن فی الحال ایم ایم اے ایشو نہیں ہے، اسی لئے اسے خیرباد نہیں کہہ رہے۔ بلکہ جماعت کے اندرونی امور پر توجہ ہے۔ جو لوگ جماعت کی پالیسی سے اختلاف کرکے خاموش ہوگئے یا الگ ہوگئے، ان کو واپس لانے کی کوشش کریں گے۔ لیکن جنہوں نے ڈسپلن کی خلاف ورزی کی، ان کو جماعت سے نکال دیا جائے گا‘‘۔
٭٭٭٭٭