سدھوکی لاہور میں شاپنگ-انتہاپسندوں کی تنقید مسترد-واپس چلے گئے
اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) وزیراعظم عمران خان کی حلف برداری میں خصوصی طور پر شرکت کے لیے آنے والے سابق بھارتی کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو واپس روانہ ہوگئے جب کہ ان کے خلاف بھارت میں نفرت کی لہر برقرار ہے۔بھارتی کرکٹر نوجود سنگھ کو سینیٹر فیصل جاوید نے الوداع کیا اور وہ بذریعہ واہگہ بارڈر واپس روانہ ہوئے۔ روانگی سے قبل سدھو نے لاہور کے علاقے ٹیکسالی سے 2جوڑی کوہاٹی چپلیں خریدیں جو سفید اور سلور رنگ کی تھیں۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ وہ یہاں سے پیار اور عزت لے کر جارہے ہیں، پاکستانیوں نے جو محبت دی وہ تا عمر یاد رہے گی۔ ریگستان کی مٹی پر بارش پڑنے سے سوندھی خوشبو آنا اچھا شگن ہے، اچھی شروعات کرکے جارہے ہیں، فاؤنڈیشن بنا کر اس امید سے جارہے ہیں کہ کوئی اس پر عمارت کھڑی کردے۔اس موقع پر سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ پاک بھارت کرکٹ میچ ہونا چاہیے جس پر نوجوت سدھو کا کہنا تھا کہ آئی پی ایل اور پی ایس ایل کے ونر کے درمیان میچ اچھا آئیڈیا ہے۔دوسری جانب وزیراعظم پاکستان کی تقریب حلف برداری میں نوجوت سنگھ سدھو اور سربراہ پاک فوج جنرل قمر جاوید باجوہ کا مصافحہ اور صدر آزاد کشمیر کی برابر والی نشست پر بیٹھے جانے پر بھارتی میڈیا نے ہنگامہ کھڑا کردیا۔ایوان صدر میں ہونے والی تقریب حلف برداری میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھارتی مہمان نوجوت سنگھ سدھو سے ملاقات کر کے ان کی خیریت دریافت کی اس موقع پر نوجوت سدھو سربراہ پاک فوج سے 2مرتبہ گرم جوشی سے گلے بھی ملے۔بھارتی میڈیا سدھو کے آرمی چیف سے معانقے پر ہنگامہ کھڑا کرتے ہوئے انہیں غدار قرار دے رہا ہے جب کہ بھارتی شہر لدھیانہ میں انتہا پسندوں کی جانب سے سدھو کے پتلے جلا کر احتجاج کیا گیا جس پر وہاں کے میڈیا نے اسے نمایاں کوریج بھی دی۔ بھارتی میڈیا این ڈی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے نوجوت سنگھ سدھو کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کرنا اعزاز سمجھتا ہوں کیوں کہ یہ تاریخی تھی، عمران خان کا ویژن بہت صاف ہے اور مجھے یقین ہے کہ ان کے آنے سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری آئے گی جس کی ہم سب کو ضرورت ہے۔انہوں نے بتایا کہ عمران خان حلف لینے کے بعد ملے اور والہانہ انداز میں گلے لگایا جس کے بعد ہم نے کافی دیر تک بات بھی کی اور نیک خواہشات کا اظہار بھی کیا، عمران وہ شخص ہے جو سب کی سنتا ہے لیکن کرتا اپنی من کی ہے کیونکہ وہ سیدھی سوچ کا مالک ہے۔ایک سوال میں ان سے پوچھا گیا کہ بھارت میں جنرل قمر جاوید باجوہ کی ملاقات پر تنازع کھڑا ہوگیا ہے آپ کیا وضاحت دیں گے؟انہوں نے جواب دیا کہ مجھے پاکستان میں بہت عزت ملی تقریب کے دوران تینوں مسلح افواج کے سربراہان سے ملاقات ہوئی جب جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب چلتے ہوئے آئے تو ان سے مصافحہ کیا انہوں نے فوراً کہا میں جنرل ہوں جب کہ کرکٹر بننا چاہتا تھا بعد ازاں میرے کچھ کہے بغیر ہی انہوں نے کہا کہ سدھو ہم امن چاہتے ہیں جس کو سن کر بے حد خوشی ہوئی۔سدھو کا کہنا تھا کہ جنرل قمر جاوید نے خود سے کہا کہ وہ کرتار پور میں واقع بابا گورو نانک کے گوردوارے کو ان کی آئندہ برس سالگرہ پر سکھ یاتریوں کے لیے کھول دیں گے تاکہ وہ مذہبی ادائیگی کرسکیں، اور یہ سننا ایسا تھا جیسے خواب کی تعبیر ہوگئی۔ان کا کہنا تھا کہ اُس وقت مجھے ایک امید نظر آئی اور امید ہی تبدیلی لاتی ہے، جو کچھ بھی ماضی میں ہوچکا ہے اور حکومت کی جانب سے جو بھی ہوا اس سے آگے بڑھنا چاہیے یہ ایک نیا سورج ہے مثبت تبدیلی ہے بھارت کو ایک قدم بڑھانا چاہیے تاکہ وہاں سے دو قدم بڑھائے جائیں۔ان کا کہنا تھا کہ الیکشن اگلے الیکشن کے لیے نہیں لڑے جاتے بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے لڑے جاتے ہیں دونوں ممالک کے مستقبل میں امن ہو اس سے بہتر کچھ نہیں باقی تنقید پر کچھ نہیں کہوں گا کیونکہ مجھے نہیں ہے روگ کہ کیا کہیں گے لوگ۔واضح رہے کہ بھارتی میڈیا نوجوت سنگھ سدھو کی جنرل قمر جاوید باجوہ سے مصافحہ سے لے کر تقریب میں آزاد کشمیر کے صدر مسعود خان کے برابر والی نشست پر براجمان ہونے پر پروپیگنڈا کر رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ تقریب کی انتظامیہ نے سوچی سمجھی سازش کے تحت سدھو کو مسعود خان کے برابر جگہ دی ہے جب کہ سدھو کو ان کے ساتھ بیٹھنا چاہیے نہ ملاقات کرنی چاہیے تھی۔