لاہور (امت نیوز / ایجنسیاں) تحریک انصاف کے عثمان احمد بزدار مسلم لیگ (ن) کے حمزہ شہباز کو 27ووٹوں سے شکست دے کر پنجاب کے نئے وزیر اعلیٰ منتخب ہوگئے۔ اجلاس کے دوران شدید احتجاج اور ہنگامہ آرائی دیکھنے میں آئی۔ ن لیگ کے ارکان نے اسپیکر ڈائس کا گھیراؤ کر کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کیخلاف زبردست نعرے بازی کی۔ مبصرین کے مطابق نئے پاکستان کی دعویدار جماعت تحریک انصاف نے ملک کے سب سے بڑے اور سیاسی طور پر اہم ترین صوبے کی تقدیر ایک ایسے شخص کے حوالے کر دی ہے، جو پرانے سرداری نظام کا نمائندہ اور محافظ ہے۔ جس کا والد اور قبیلے کا سردار فتح محمد 3بار پنجاب اسمبلی کا رکن منتخب ہونے کے باوجود علاقے کے مسائل حل نہ کرسکا۔ خود عثمان بزدار سابق فوجی آمر کے نچلی سطح پر اقتدار منتقلی کے منصوبے کے تحت 2بار تقریباً 9برس تحصیل ناظم رہے، لیکن اپنے قبیلے کے لوگوں تک بجلی سمیت دیگر بنیادی سہولیات سے محروم رکھا۔ تفصیلات کے مطابق اتوار کو نئے وزیر اعلیٰ پنجاب کے چناؤ کیلئے اجلاس اسپیکر چوہدری پرویز الٰہی کی سربراہی میں منعقد ہوا۔ قومی اسمبلی کی طرح پنجاب اسمبلی میں بھی قائد ایوان کی انتخاب خفیہ رائے شماری کی بجائے ایوان کی ڈویژن یا رائے شماری کی بنیاد ہوا، جس میں اپنے اپنے امیدوار کی حمایت کرنے والے ارکان الگ الگ لابی میں گئے اور بعد میں ان کی گنتی کی گئی۔ پیپلز پارٹی کے ارکان نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ اسپیکر پرویز الٰہی نے جیسے ہی عثمان بزدار 186 ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کرنے کا اعلان کیا تو حکمراں جماعت کے ارکان کی جانب سے ‘‘آئی آئی پی ٹی آئی’’ کے نعرے لگانے شروع کر دیئے اور اسی دوران اسپیکر نے حمزہ شہباز کے 159 ووٹ حاصل کرنے کا اعلان کیا۔ اسمبلی اجلاس کے دوران (ن) لیگ کے اراکین نے اسپیکر ڈائس کا گھیراؤ کر کے شدید نعرے بازی کی اور کہا کہ یہ الیکشن نہیں، بلکہ سلیکشن ہو رہی ہے، تاہم اسپیکر نے احتجاج کی پرواہ کیے بغیر اجلاس کی کارروائی جاری رکھی۔ عثمان بزدار کے انتخاب کے ساتھ ہی آبادی کے لحاظ سے سب بڑے اور سیاسی اعتبار سے اہم صوبے میں مسلم لیگ نون کی 10سالہ حکمرانی کے تسلسل کا خاتمہ ہوا اور صوبے کی قیادت پہلی بار تحریک انصاف کے ہاتھ میں آئی ہے۔ اپنے انتخاب کے بعد اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان احمد بزدار کا کہنا تھا کہ میں اس منصب پر فائز ہونے پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں۔ چیئرمین پی ٹی آئی کا بھی شکر گزار ہوں، جنہوں نے پنجاب کے سب سے پسماندہ علاقے کو وزارت اعلیٰ کے لیے منتخب کیا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ صوبے میں اسٹیٹس کو کو شکست دیں گے اور یہاں سے کرپشن کا مکمل طور پر خاتمہ کریں گے، جبکہ پنجاب کی پولیس کو عمران خان کے ویژن کے ساتھ ٹھیک کریں گے، جیسا کہ محنت کے ساتھ خیبر پختون پولیس کو بہتر بنایا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ مجھ سے سوال کیا جاتا ہے کہ آپ وزارت اعلیٰ کے امیدوار کس میرٹ سے ہیں تو میرا جواب ہے کہ میں پنجاب کی سب سے پسماندہ تحصیل سے ہوں اور یہی میرا میرٹ ہے۔ نومنتخب وزیر اعلیٰ نے مزید کہا کہ وہ پورے ایوان کو ساتھ لے کر چلیں گے اور ہر رکن اسمبلی ہی اپنے حلقے کا وزیر اعلیٰ ہوگا۔ دوسری جانب جب مسلم لیگ نون کے رہنما حمزہ شہباز شریف نے ایوان میں انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف بات کرنی شروع کی تو حکمران جماعت کے ارکان کی جانب سے شور مچایا گیا تو وہ احتجاجاً اپنی نشست پر بیٹھ گئے اور کچھ دیر بعد حمزہ شہباز نے دوبارہ تقریر شروع کی تو سرکاری ٹی وی نے ان کی تقریر کو نشر کرنا روک دیا۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما حمزہ شہباز نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت کو 3مرتبہ اقدار ملا ہے، انہیں اقتدار کی بھوک نہیں ہے، یہ آنے جانے والی چیز ہے۔ لیکن آج میں بین الاقوامی میڈیا میں دیکھتا ہوں تو پاکستان کی انتخابات کے حوالے سے جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انتخابات کے روز جب اپنی امنگیں لے کر ٹی وی کے سامنے بیٹھے تھے لیکن رات کو تقریباً 11 بجے یہ اعلان سامنے آیا کہ الیکشن کمیشن کا آر ٹی ایس سسٹم بیٹھ گیا تھا۔ حمزہ شہباز کا کہنا تھا کہ یہ آر ٹی ایس سسٹم نہیں بیٹھا تھا، بلکہ عوام کی امنگوں پر شب خون مارا گیا تھا۔انہوں نے انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ انہیں الیکشن کے روز یہ اطلاعات ملنا شروع ہوگئی تھیں کہ ان کے پولنگ ایجنٹس کو بند کردیا گیا۔ لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ ان کی سابقہ حکومت نے ملک میں دہشت گردی کو ختم کیا اور شہروں میں امن قائم کیا۔ حمزہ شہباز نے کہا ان کے اراکین اسمبلی نے ہاتھوں پر سیاہ پٹیاں باندھی ہوئی ہیں، چوڑیاں نہیں پہنی ہوئیں، تاہم اپنا آئینی کردار ادا کریں اور پی ٹی آئی کو صوبے میں ٹف ٹائم دیں گے، تاہم انہوں نے واضح کیا کہ وہ کنٹینر پر چڑھ کر ہنگامہ نہیں کریں گے، بلکہ سڑکوں اور ایوانوں میں احتجاج کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ اب بھی پاکستان مسلم لیگ (ن) پنجاب کی سب سے بڑی اور مقبول جماعت ہے۔ کرسی سے نہیں خدمت سے عظمت ہوتی ہے، قوم پوچھ رہی ہے کہ دہرا معیار کب تک چلے گا؟ قبل ازیں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کے لیے پارلیمانی کمیشن تشکیل دینے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ کمیشن کو 30دن میں اپنا کام مکمل کرنا چاہیے، تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی سامنے آجائے۔ تحریک انصاف کی اتحادی جماعت ق لیگ کے رہنما اور اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی نے حزب اختلاف کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایک طرف اپوزیشن جمہوریت کی بات کرتی ہے تو دوسری جانب جمہوری نظام کو نقصان پہنچانے کی بات کرتی ہے۔ انہوں نے اپوزیشن ارکان کی جانب سے بطور احتجاج بازوں پر سیاہ پٹیاں پہننے پر کہا کہ احتجاج ان کا حق ہے چاہے وہ کالی پٹیاں پہنیں یا کالے سوٹ۔ خیال رہے کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی 175 اور اس کی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کی 10نشستیں ہیں جو مجموعی طور پر 185بنتی ہیں۔ ادھر مسلم لیگ (ن) کی پنجاب میں 162نشستیں ہیں، تاہم 3 اراکین کی جانب سے حلف نہ لینے کی وجہ سے اس کی تعداد ووٹنگ کے لیے 159ہی ہے۔ واضح رہے کہ پنجاب کے 3صوبائی حلقوں میں انتخابی نتائج زیر التوا ہیں۔ تحریک انصاف کے چیئرمین اور وزیر اعظم عمران خان نے صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے عہدے کے لیے سردار عثمان بزدار کو نامزد کیا تھا، جبکہ مسلم لیگ نون کی جانب سے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کے بیٹے حمزہ شہباز امیدوار تھے۔ اس سے پہلے اسپیکر کے انتخاب کے لیے 349 ممبران نے ووٹ ڈالے، جس میں سے پرویز الٰہی نے 201ووٹ حاصل کر کے فتح حاصل کی، جبکہ مسلم لیگ نواز کے امیدوار چوہدری اقبال گجر نے 147ووٹ حاصل کیے اور ایک ووٹ مسترد ہوا تھا۔ تحریک انصاف کے دوست مزاری 187 ووٹ لے کر پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر منتخب ہوئے تھے، جبکہ ان کے مخالف مسلم لیگ (ن) کے امیدوار محمد وارث نے 159 ووٹ حاصل کیے تھے۔
٭٭٭٭٭
لاہور (امت نیوز) نومنتخب وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار تونسہ اور بلوچستان کے قبائلی علاقے میں آباد بزدار قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔گزشتہ کئی دہائیوں سے پنجاب کی سیاست میں متحرک ان کا خاندان وفاداریاں بدلنے میں بھی شہرت رکھتا ہے اور مختلف ادوار میں کئی سیاسی جماعتوں کے ساتھ منسلک رہ چکا ہے۔ ان کے والد سردار فتح محمد خان بزدار قبیلے کے سردار ہیں۔ 70 کی دہائی میں سرکاری اسکول میں گریڈ 14 کے ٹیچر تھے، تاہم بعد میں ملازمت سے مستعفی ہوکر سیاست میں آگئے اور 3 مرتبہ رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے، جبکہ ان کے سب سے بڑے بیٹے عثمان بزدار نے عملی سیاست کا آغاز 2001کے بلدیاتی انتخابات سے کیا تھا۔ مشرف دور میں ق لیگ کے پلیٹ فارم سے 2مرتبہ ٹرائبل ایریا کے تحصیل ناظم رہ چکے ہیں۔ اقتدار کی چھتری تلے رہنے کی خواہش انہیں2013 میں مسلم لیگ ن میں لے آئی، جس کے ٹکٹ پر انہوں نے پہلی بار صوبائی اسمبلی کا انتخاب لڑا، لیکن بدقسمتی سے ہار گئے۔ شریف خاندان پر برا وقت آیا تو جنوبی پنجاب صوبہ محاذ میں شمولیت اختیار کرلی، جبکہ حالیہ انتخابات سے قبل مستقبل کا سیاسی نقشہ بھانپتے ہوئے تحریک انصاف سے جا ملے اور پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر حلقہ پی پی 286سے 26ہزار 8سو 97ووٹ لے کر نہ صرف کامیاب ہوئے، بلکہ کپتان کی مہربانی سے صوبے کے اعلیٰ ترین منصب پر بھی براجمان ہوگئے۔ ہر دور میں برسراقتدار جماعت سے تعلق رکھنے کے باوجود اپنے علاقے کی قسمت بدلنے کی کوشش نہیں کی۔ ڈی جی خان کے قبائلی علاقے زین اور بغل چھر میں یورینیم کے بیشتر ذخائر ان کی ملکیتی زمین سے نکلے، جس سے پاکستان ایٹمی طاقت بنا۔ لیکن عثمان بزدار کا آبائی علاقہ بارتھی بھی تمام بنیادی سہولیات سے محروم رہا۔ ڈی جی خان کے اس قبائلی علاقہ میں نہ بجلی ہے، نہ پختہ سڑک اور نہ کوئی کالج ہے۔سردار عثمان بزدار یکم مئی 1969 کو پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں بارتھی میں حاصل کی، تونسہ سے میٹرک اور ملتان کی بہاالدین ذکریا یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کیا۔ان کی 5 بہنیں اور 5 بھائی ہیں۔ بھائیوں میں وہ سب سے بڑے ہیں۔صحافی اور تجزیہ نگار سہیل وڑائچ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ سردار عثمان بزدار کا خاندان روشن خیال تصور کیا جاتا ہے، تاہم مالی اعتبار سے ضلع ڈیر غازی خان میں مقیم دوسرے بڑے قبائل کے مقابلے میں زیادہ مضبوط نہیں ہے۔ ان کی نامزدگی کی پیچھے ایک منطق یہ بھی ہو سکتی ہے کہ تحریک انصاف ضلع ڈیرہ غازی خان، راجن پور اور ملحقہ علاقوں سے کافی بھاری برتری سے کامیاب ہوئی ہے تو اس علاقے کو کچھ ملنا بھی تھا، تاہم ان کے خیال میں یہ ایک عارضی بندوبست بھی ہو سکتا ہے، جس میں بعد میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ پی ٹی آئی کے دعوے کے مطابق جنوبی صوبہ پنجاب کا علیحدہ صوبہ بھی بننا ہے، تو اس وقت بھی تبدیلی ہو سکتی ہے۔ ڈیرہ غازی خان اور ملحقہ اضلاع میں آباد بڑے قبائل میں لغاری، مزاری، دریشک، کھوسہ اور دیگر قبائل شامل ہیں، تاہم ان قبائل کو اثر و رسوخ اور مالی حیثیت میں زیادہ بڑا تصور کیا جاتا ہے۔
٭٭٭٭٭