ایف آئی اے افسران 1300 شکایات کے ازالے میں رکاوٹ

عمران خان
ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ آفس کے افسران کی نااہلی کے باعث مختلف سرکاری محکموں اور ان کے افسران کے خلاف کرپشن اور بدعنوانیوں کی نو سو سے زائد تحریری شکایات دب گئیں۔ گزشتہ مہینوں میں جمع ہونے والی ان شکایات کی ابتدائی چھان بین کرکے انہیں مزید تحقیقات کیلئے ایف آئی اے کے متعلقہ سرکلز کو ارسال ہی نہیں کیا گیا۔ دوسری جانب ایف آئی اے سندھ کے سرکلوں میں بھی چار سو سے زائد تحریری شکایات پر کام التوا کا شکار ہے۔ جس کے نتیجے میں ابتدائی شکایات پر باقاعدہ انکوائریاں رجسٹرڈ ہونے کا عمل بھی شدید متاثر ہوا ہے۔ مجموعی طور پر ایف آئی اے سندھ کے زونل آفس اور سرکلوں میں 1300 سے زائد تحریری شکایات پر کام التوا کا شکار ہے، جس کے نتیجے میں ایف آئی اے کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل امور یعنی وفاقی سرکاری محکوں کے خلاف اینٹی کرپشن ایکٹ کے تحت کارروائیاں تعطل کا شکار ہیں۔
ایف آئی اے ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق حالیہ دنوں میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے آنے والے احکامات کی روشنی میں سابق ڈائریکٹر ایف آئی اے کراچی منیر احمد شیخ کا تبادلہ کرکے انہیں ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل سائوتھ نجف مرزا کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے اور ان کی جگہ نئے ڈائریکٹر ایف آئی اے کراچی کے عہدے کیلئے سندھ پولیس سے لائے گئے ڈی آئی جی سلطان خواجہ کو اہم چارج دیا گیا ہے۔ ذرائع کے بقول نئے ڈائریکٹر ایف آئی اے سلطان خواجہ کیلئے جہاں پر کئی دیگر اہم ذمے داریاں سامنے موجود ہیں وہیں ان کیلئے سب سے اہم ذمہ داری یہ بھی ہوگی کہ ایف آئی اے سندھ کے زونل آفس میں ایف آئی اے کی بنیادی ذمے داریوں میں شامل کئی اہم کام التوا کا شکار ہیں، جنہیں نئے ڈائریکٹر کو ترجیحی بنیادوں پر درست کرنا ہوگا۔
ذرائع کے بقول ایف آئی اے چونکہ وفاقی اینٹی کرپشن کا ادارہ ہے جس کی بنیادی ذمے داریوں میں شامل ہے کہ اس ادارے کے تحت کے پی ٹی، پی آئی اے، محکمہ کسٹم، ایف بی آر، اسٹیٹ بینک، نیشنل بینک، پوسٹ آفس، پی پی ایل، شپنگ کارپوریشن، پاکستان ریلوے، سول ایوی ایشن اتھارٹی، ای او بی آئی، ڈرگ ریگو لیٹری اتھارٹی سمیت دیگر تمام وفاقی سرکاری اداروں میں ہونے والی کرپشن، بدعنوانیوں اور بے قاعدگیوں کیخلاف کارروائیاں کی جائیں اور ان اداروں کے کرپشن میں ملوث سرکاری افسران کے خلاف اینٹی کرپشن ایکٹ کے تحت تحقیقات پر کام کیا جائے، ایف آئی اے ایکٹ کے تحت ایف آئی اے افسران جس طریقے سے کام کرتے ہیں اس کے مطابق سرکاری اداروں میں کرپشن اور بے قاعدگیوںکے حوالے سے موصول ہونے والی ابتدائی شکایات اور اطلاعات پر ایف آئی اے کے افسران چھان بین کرکے یہ طے کرتے ہیں کہ آیا کہ موصول ہونے والی تحریری شکایت اس قدر ٹھوس ہے کہ اس کو باقاعدہ انکوائری میں تبدیل کرکے مزید تحقیقات کی جائیں۔ اگر موصولہ شکایت مبہم ہو یا جھوٹی ہو تو ایف آئی اے کے افسران اس کو ابتدائی مرحلے میں ہی یہ رپورٹ دے کر نمٹا دیتے ہیں کہ اس پر انکوائری رجسٹرڈ نہیں ہوسکتی ہے۔ اس کیلئے ایف آئی اے کے قوانین کے تحت ایک ماہ کا وقت افسران کو دیا جاتا ہے کہ وہ موصول ہونے والی تحریری شکایت یا اطلاع پر ابتدائی رپورٹ ایک ماہ کے اندر تیار کریں اور اعلیٰ افسران کو اس پر انکوائری رجسٹرڈ کرنے یا اس کو نمٹانے کی تحریری سفارش دیں۔
ذرائع کے بقول ایف آئی اے کے مقررکردہ قواعد و ضوابط کے تحت ملک کے شہری کسی بھی وفاقی سرکاری ادارے یا افسر کیخلاف کرپشن، بدعنوانی کی تحریری شکایت یا اطلاع براہ راست ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے آفس اسلام آباد یا پھر اپنے متعلقہ صوبے کے زونل آفس میں دے سکتے ہیں جہاںموجود ڈائریکٹوریٹ کے افسران ان تحریری شکایات کی چھان بین کرتے ہیں اور انہیں ایف آئی اے کے متعلقہ سرکلوں کو ارسال کردیا جاتا ہے۔ ذرائع کے بقول اگر تحریری شکایت کسی بینک کے حوالے سے ہو تو اس شکایت کو مزید تحقیقات کیلئے ایف آئی اے کمرشل بینکنگ سرکل کو ارسال کیا جاتا ہے اور اگر شکایت کسی وفاقی ادارے کے افسر کے حوالے سے ہو تو اس کو ایف آئی اے کے اینٹی کرپشن اینڈ کرائم سرکل کو بھیجا جاتا ہے۔ اسی طرح اگر شکایت کسی وفاقی سرکاری ادارے کے حوالے سے ہو تو اس کو ایف آئی اے کے کارپوریٹ کرائم سرکل کو بھیجا جاتا ہے۔ جبکہ دہشت گردی سے متعلق اطلاعات ایف آئی اے کائونٹر ٹیررازم ونگ اور انسانی اسمگلنگ سیل کے سپرد کی جاتی ہیں۔ ٹریول ایجنٹوں کی لوٹ مار اور دھوکہ دہی کے حوالے سے شکایات ایف آئی اے کے اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سرکل کو بھیجی جاتی ہیں جہاں پر متعلقہ سرکلوں کے انچارج جوکہ ڈپٹی ڈائریکٹر یا ایڈیشنل ڈائریکٹر سطح کے افسران ہوتے ہیں وہ ان شکایات کا جائزہ لینے کے بعد اپنے سرکلوں میں موجود تفتیشی افسران کو دیتے ہیں اور انہیں ایک ماہ کا وقت دیا جاتا ہے کہ وہ ایک ماہ کے اندر ان شکایات پر کام کرکے رپورٹ ارسال کردیں، جس کے بعد یا تو ان تحریری شکایات پر انکوائری رجسٹرڈ کی جاتی ہے یا پھر اس کو غیر ضروری اور غیر اہم قرار دے کر نمٹا دیا جاتا ہے۔ اس طرح سے ایک پروسس مستقل چلتا رہتا ہے اور پرانی شکایات نمٹائی جاتی ہیں اور نئی شکایات پر کام کو آگے بڑھایا جاتا ہے۔
ذرائع کے بقول ایف آئی اے کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل اسی عمل کے نتیجے میں وفاقی سرکاری محکموں اور افسران کے خلاف کرپشن کے بڑے اسکینڈل اور مقدمات اور تحقیقات سامنے آتی ہیں کیونکہ ابتدائی شکایات پر کام کرنے کے بعد جب ان کو باقاعدہ انکوائری میں تبدیل کیا جاتا ہے تو ان انکوائریوں کے تفتیشی افسران کو مزید تحقیقات کیلئے متعلقہ سرکاری اداروں کو تین ماہ کا وقت دیا جاتا ہے، تاکہ شواہد جمع کرکے ملنے والے ریکارڈ کی صورت میں یہ طے کرسکیں کہ اس پر متعلقہ سرکاری محکمے یا افسر کے خلاف باقاعدہ مقدمہ درج کیا جاسکتا ہے یا نہیں۔ اس کے بعد اعلیٰ افسران کو رپورٹ جاری کی جاتی ہے۔ اگر انکوائری پر کام تین ماہ میں مکمل نہ ہو تو اعلیٰ افسران تفتیشی افسران کو مزید 3 ماہ کا وقت دیتے ہیں اور اس میں ضرورت پڑنے پر مزید تین ماہ کی توسیع دی جاسکتی ہے۔ تاہم 9 ماہ کے اندر تفتیشی افسران کو ہر صورت نتیجہ اخذ کرکے مقدمہ کے اندراج کیلئے سی ایف آر رپورٹ تیار کرکے ارسال کرنا ہوتی ہے، جس کے بعد سرکاری محکموں اور افسران کے خلاف کرپشن کے میگا اسکینڈل سامنے آتے ہیں۔ تاہم اس وقت ایف آئی اے کا یہ اہم اور بنیادی کام زونل آفس میں تعینات افسران کی غفلت اور نا اہلی کی وجہ سے ٹھپ پڑا ہوا ہے، جس کو دوبارہ سے فعال کرنا نئے ڈائریکٹر سلطان خواجہ کیلئے سب سے اہم ہوگا ۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment