کمزور وزیراعلیٰ پنجاب اتحادیوں اور اپوزیشن کے لئے قابل قبول

نجم الحسن عارف
پنجاب کے پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنے والے وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار کی کمزوری ہی اب تک ان کی قوت بنی ہوئی ہے۔ کمزور وزیر اعلیٰ پنجاب صوبے میں حکومت کے اتحادیوں اور اپوزیشن کیلئے بھی قابل قبول ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ عثمان بزدار کیلئے اس وقت تک کوئی خطرہ نہیں، جب تک وہ وزیر اعظم عمران خان کیلئے چیلنج بننے کی خود کوشش نہیں کرتے اور وزیر اعظم سے بالا بالا اپنی شخصیت کو نمایاں نہیں کرتے۔ ذرائع کے مطابق بڑے صوبے پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کیلئے عمران خان کا انتخاب ایک کمزور فرد ہی ہو سکتا تھا، جو شاید کوئی اور نہ ہو سکتا تھا۔ عثمان بزدار آٹھ ماہ گزرنے کے بعد بھی حکومتی معاملات پر گرفت مضبوط نہ ہو سکنے کے تاثر کی وجہ سے ایک جانب ان کی سب سے اہم اتحادی جماعت کیلئے ’’اچھی خبر‘‘ ہیں۔ وہیں سب سے بڑی اپوزیشن جماعت مسلم لیگ (ن) بھی وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی موجودگی اپنے لئے مستقل عوامی حمایت اور عوام میں بالواسطہ طور پر ’’گڈ وِل‘‘ کا اہم ذریعہ سمجھتی ہے۔ تاہم مسلم لیگ (ن) کے ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ عثمان بزدار کے وزارت علیا پر موجود رہنے سے جہاں انہیں فائدہ ہے وہیں ان کے جانے سے بھی ان کا نقصان نہیں ہو گا، بلکہ فائدہ ہوگا۔ خصوصاً نواز شریف کے جیل سے باہر آجانے کے ماحول کی وجہ سے صوبائی اسمبلی کے آزاد ارکان کا پارٹی طرف متوجہ ہونا فطری عمل ہے۔ اس لئے عثمان بزدار دونوں صورتوں میں مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے لئے مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق چوہدری برادران پہلے دن سے عثمان بزدار کی صوبے کے اعلی ترین منصب پر موجودگی سے خوش ہیں کہ ان کے سامنے کوئی سخت اور جارح مزاج قسم کا ’’ہارڈ کور کھلاڑی‘‘ نہیں ہے۔ اس لئے چوہدری پرویز الہی نے پہلے جہانگر ترین کی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان کو اپنا پیغام پہنچایا تھا۔ اس مقصد کیلئے انہوں نے خود ہی نجی محفل کی ایک غیر رسمی ویڈیو کو لیک کیا، جس میں وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کو گورنر چوہدری سرور سے بچانے کی بات ہوئی تھی۔ اب چوہدری برادارن نے ایک مرتبہ پھر ویر اعظم عمران خان کو اس جانب متوجہ کیا ہے اور ان سے مطالبہ کیا ہے کہ عثمان بزدار کو ان کے منصب سے الگ نہ کیا جائے اور انہیں وزارت علیا پر برقرار رکھا جائے۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق چوہدری برادران یہ مطالبہ کرتے ہوئے پی ٹی آئی قیادت کو عملاً دوہرا پیغام دے رہے ہیں۔ ایک جانب عمران خان کو یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ ان سے حکومت نہی چل رہی ہے اور دوسری جانب اس کے باوجود وہ پوری طرح وزیر اعظم کے نامزد کردہ عثمان بزدار کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ذرائع کے بقول چوہدری برادارن کے ساتھ مرکز میں قاف لیگ کیلئے دوسری وزارت کا وعدہ پورا نہیں کیا گیا ہے، لیکن اس کے باوجود چوہدری برادارن اپنے روایتی تحمل اور بردباری کے ساتھ حکومت اور عمران خان کے ساتھ کھڑے رہنے کی بات کرتے ہیں۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ چوہدری برادران اپنی فیملی کے متفقہ فیصلے کے مطابق مونس الہی کیلئے وفاقی وزارت کا قلمدان چاہتے ہیں۔ جبکہ عمران خان مونس الہی کے خلاف نیب میں بعض انکوائریز کے شروع ہو جانے کے باعث ق لیگ کو دوسری وفاقی وزارت کا قلمدان مونس الہی کی جگہ چوہدری فیملی کے ہی کسی اور نوجوان کو دینے پر تیار ہیں۔ لیکن چوہدری برادران اپنی فیملی کا فیصلہ تبدیل کرنے پر فی الحال تیار نہیں۔ ان ذرائع کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے مونس الہی کو وزارت نہ دینے کا پیغام اپنے مشیر نعیم الحق کے ذریعے بھجوایا ہے کہ کیسز کی وجہ سے وزیر اعظم کی خواہش ہے کہ کسی اور کو کابینہ کا رکن بنادیا جائے۔ ذرائع کے مطابق عثمان بزدار جن کیلئے شروع میں پارٹی کے اندر قبولیت کم اور چیلنج زیادہ تھے، اب آٹھ نو ماہ گزرنے کے بعد ان کیلئے بڑے چیلنج کمزور پڑ چکے ہیں۔ اس سلسلے میں عبدالعلیم خان کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری اور وزارت سے استعفے کے بعد پارٹی کے اندر کوئی ایسا بڑا نام نہیں ہے، جسے وزارت اعلیٰ کیلئے بے کلی محسوس ہوتی ہو۔ اس لئے پارٹی کے پرانے لوگ بھی عثمان بزدار کو دوسرے کسی بھی ممکنہ وزیر اعلی کے مقابلے میں بہتر سمجھنے لگے ہیں۔ تاہم جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے روایتی جاگیردار خاندانوں خصوصا ڈیرہ غازی خان کے بڑے خاندانوں کیلئے عثمان بزدار کا اس منصب پر بدستور فائز رہنا قدرے تکلیف دہ ہے۔ دوسری جانب پارٹی میں یہ رائے بھی موجود ہے کہ حکومت کی کارکردگی کا پنجاب میں گراف اوپر نہ اٹھ سکنے کی وجہ عثمان بزدار نہیں، بلکہ پی ٹی آئی حکومت کی مجموعی کارکردگی ہے۔ کیونکہ صوبائی حکومت اب تک کچھ ڈلیور نہیں کر سکی ہے۔ اس لئے عثمان بزدار کو کارکردگی کی بنیاد پر اپنے منصب سے ہٹایا گیا تو پھر وفاقی حکومت ہی نہیں خیبر پختون حکومت بھی خطرے میں گھِر سکتی ہے۔ ان ذرائع کے مطابق پنجاب میں وزیر اعلی کو ان کے منصب سے ہٹایا گیا یا اس طرح کی کسی آواز کو اہمیت دی گئی تو اس کے بعد اسمبلی میں پی ٹی آئی کے لیے اپنی محدود سی اکثریت کو برقرار رکھنے میں بھی مسائل آ سکتے ہیں اور نہ صرف آزاد ارکان ہی اپوزیشن کی سب سے بڑی پارٹی نواز لیگ کی طرف جا سکتے ہیں۔ بلکہ اتحادی ووٹ بھی بے قابو ہو سکتے ہیں۔ لہذا پی ٹی آئی کی پنجاب میں کمزور اکثریت بھی عثمان بزدار کے تحفظ کا باعث بنی ہوئی ہے۔ اور پی ٹی آئی کو کوئی بڑا قدم اٹھانے سے روکے ہوئے ہے۔ نیز یہ کہ عثمان بزدار کو بار بار وسیم اکرم پلس کا درجہ دینا وزیر اعظم کو ایسے کسی بھی اقدام سے روکے ہوئے ہے۔ اس لئے وزیر اعلی کی کمزوری ہی ان کی طاقت بنی ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چوہدری برادران بھی اپنا سیاسی بیانیہ مسلسل عثمان بزدار کے حق میں جاری کر رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment