مفتی تقی عثمانی پر حملہ کالعدم سپاہ محمد کی ذیلی تنظیم نے کرایا

امت رپورٹ
ممتاز عالم دین مفتی تقی عثمانی پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں میں سے ایک دہشت گرد کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ اسی ملزم کی نشاندہی پر روزنامہ جنگ میں کام کرنے والے مطلوب حسین موسوی اور نجی چینل ’’اب تک‘‘ کے کارکن علی مبشر نقوی سمیت پچاس کے لگ بھگ افراد بھی گرفتار کئے گئے ہیں۔ جن پر شبہ ہے کہ وہ کسی نہ کسی درجے میں دہشت گردوں کو سہولت یا مدد فراہم کرتے تھے۔ یا ان سے رابطے میں تھے اور یا اسی تنظیم سے تعلق رکھتے تھے، جس سے حملہ آوروں کا تعلق تھا۔ اس سلسلے میں تفتیش کا سلسلہ جاری ہے۔ اہم ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ حملہ آوروں کا تعلق کالعدم سپاہ محمد کی ایک ذیلی تنظیم ’’زینبیون ‘‘ سے ہے۔ اور حملہ آوروں کو یہ ٹاسک افغانستان کے ایک سرحدی علاقے میں قائم تربیتی اور ٹرانزٹ کیمپ میں دیا گیا تھا۔ اس کیمپ میں پاکستان سے جانے والے ان لڑکوں کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ جو افغانستان کے راستے شام بھیجے جاتے ہیں۔ اور وہاں شیعہ ملیشیا کی حمایت میں لڑتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اب تک کوئی پندرہ سے سولہ سو نوجوانوں کی تفصیلات خفیہ اداروں کے ہاتھ لگی ہیں۔ جنہیں پاکستان سے شام بھیجا گیا ہے۔ اس کام کے لئے سپاہ محمد کی ذیلی تنظیم ’’زینبیون‘‘ کے علاوہ ’’فاطمیون‘‘ نامی تنظیم بھی سرگرم ہے۔ یہ دونوں تنظیمیں پاکستان کے مختلف شہروں سے اعتماد کے لڑکے بھرتی کر کے افغانستان اور ایک ہمسایہ ملک کے ذریعے شام بھیجتی ہیں۔ ان تنظیموں میں بھرتی ہوکر شام جانے والے لڑکوں کے گھروں پر ہر ماہ ایک لاکھ بیس ہزار روپے باقاعدگی سے پہنچائے جاتے ہیں۔ اہم ذرائع کا کہنا ہے کہ گرفتار شدگان میں شامل ایک فرد قبل ازیں ایک ہمسایہ ملک کے قونصل خانے میں مترجم کے فرائض انجام دیتا تھا۔ پھر اپنی تنظیم کے حکم پر اس نے جنگ اخبار جوائن کرلیا۔ ذرائع کے بقول مختلف میڈیا ہاؤسز میں ان تنظیموں کے کافی کارکن داخل ہوچکے ہیں۔ جن پر قومی سلامتی کے ادارے کام کر رہے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ افغانستان کے سرحدی علاقے میں قائم یہ کیمپ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ اور ایک ہمسایہ ملک کی خفیہ ایجنسی مل کر چلاتے ہیں۔ دونوں کا ٹارگٹ پاک چائنا عظیم منصوبہ سی پیک ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ چاہ بہار کا نام بہت زیادہ نمایاں ہونے کے باعث بھارت نے وہاں سے اپنے مراکز افغانستان کے سرحدی علاقوں میں منتقل کر دیئے ہیں۔ اور ان مراکز میں پاکستانی کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ نئے بھرتی شدہ رنگروٹ اور بلوچستان کی علیحدگی پسند تنظیموں کے تخریب کاروں اور دہشت گردوں کو بھی تربیت، ہدایات، ہدف اور رقوم دی جاتی ہیں۔ ذریعے کے بقول زیارتوں کے لئے ہمسایہ ملک اور عراق جانے والے افراد میں بھی ایسے افراد کو شامل کر کے شام بھیجا جاتا ہے، جو اپنے مخصوص عقیدے کی خاطر وہاں لڑنے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ تاہم ایسی ٹریول ایجنسیوں پر اب کڑی نظر رکھی جارہی ہے، جو زیارت پیکج دیتی ہیں۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ شام سے آنے والے کافی لڑکے گرفتار بھی ہو چکے ہیں۔ لیکن وہاں بھیجنے کا سلسلہ اب تک نہیں ٹوٹا۔ ذرائع نے بتایا کہ مفتی تقی عثمانی پر حملہ کرنے کا مقصد پاکستان میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی توڑنا اور خانہ جنگی پھیلانا تھا۔ اس افراتفری کی آڑ میں سی پیک کی تنصیبات پر بھی حملہ کیا جا سکتا تھا۔ تاہم اللہ کے فضل سے یہ حملہ ناکام ہوگیا۔ ذرائع کے مطابق اس حملے کی ناکامی کے بعد اب براہ راست سی پیک پر کام کرنے والے ادارے اور چینی باشندے نشانہ ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ مفتی تقی عثمانی پر حملہ کے تناظر میں حراست میں لئے گئے پچاس کے قریب افراد کے علاوہ دیگر مشکوک افراد کی گرفتاری کے لئے بھی چھاپے تیز کر دیئے گئے ہیں۔ تاکہ ماہ رمضان سے پہلے کراچی کے امن و امان کو لاحق فرقہ وارانہ خطرات کم کئے جاسکیں۔ کیونکہ گرفتار افراد میں سے بعض نے دوران تفتیش انکشاف کیا ہے کہ کالعدم تنظیم نے ماہ رمضان کے دوران بھی حملے کرنے تھے۔ تفتیشی اداروں نے کراچی آپریشن کے دوران 2013ء سے 2014ء تک کالعدم سپاہ محمد کے گرفتار کئے جانے والے اہم دہشت گردوں کی تفصیلات بھی مانگ لی ہیں۔ تاکہ ان سے تفتیش کی روشنی میں بھی مفتی تقی عثمانی حملہ کیس کی تحقیقات کو آگے بڑھایا جاسکے۔ یہ گرفتاریاں سی ٹی ڈی اور ایس یو آئی نے کی تھیں۔ کالعدم تنظیم کے گرفتار بیشتر دہشت گرد اس وقت جیلوں میں ہیں۔ اور ان سے جیلوں میں ہی تفتیش کی جائے گی۔
ذرائع کے مطابق کراچی میں زینبیون بریگیڈ اور فاطمیون کی سرگرمیاں پچھلے دو برس سے تیز ہوئی ہیں۔ بڑی کارروائی کے لئے ان تنظیموں کی جانب سے سولہ سے سترہ دہشت گردوں کا گروپ تیار کیا جاتا ہے۔ جبکہ چھوٹی کارروائی میں سات سے آٹھ دہشت گرد حصہ لیتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق سات ستمبر 2013ء کو سی ٹی ڈی نے گلستان جوہر سے کالعدم سپاہ محمد کے دو دہشت گرد جوہر حسین عرف جعفر اور ارشاد حسین عرف عامر حسین کو گرفتار کیا تھا۔ دونوں دہشت گردوں نے دوران تفتیش بتایا تھا کہ انہیں پڑوسی ملک سے فنڈنگ ہوتی تھی اور تربیت کے بعد وہ کراچی آکر کارروائیاں کر رہے تھے۔ جبکہ ان کا سرغنہ محمد علی عرف ڈاکٹر نامی شخص تھا جو، اب تک سیکورٹی اداروں کے ہتھے نہیں چڑھ سکا ہے۔ اس نوعیت کے انکشافات 2014ء میں دو مختلف کارروائیوں میں گرفتار ہونے والے دہشت گردوں محمد علی عرف عامر بھائی عرف ستار، سید شہزاد علی رضوی عرف حسین ولد سید ممتاز علی رضوی، سید حامد عباس نقوی عرف رجب علی، سید اسرار علی عرف نثار احمد، پرویز حسین عرف رمضان، ممتاز بھٹو، سید فرقان عرف بابا جی، فیصل محمود عرف سید ابو تراب، سید رفعت حسین جعفری اور اظہر حسین عرف فراز نے بھی کئے تھے۔
سیکورٹی ذرائع کے مطابق 2018ء کے وسط سے زینبیون بریگیڈ نے پاکستان میں بھرتیوں کا عمل تیز کر رکھا ہے۔ اس دوران کراچی میں بھی تنظیم کی سرگرمیاں بڑھ چکی ہیں۔ پچھلے چھ سے آٹھ ماہ کے دوران لڑائی کی خاطر شام بھیجنے کے لئے زینبیون میں پندرہ سے سولہ سو پاکستانیوں کی نئی بھرتیاں کی گئیں۔ ذرائع کے مطابق سیکورٹی اداروں کے ریکارڈ پر یہ بھی موجود ہے کہ پچھلے دو سے ڈھائی برس کے دوران پڑوسی ملک جانے والے ساڑھے چار ہزار سے زائد زائرین میں سے بیشتر واپس پاکستان نہیں آئے۔ سیکورٹی اداروں کی جانب سے حکومت کو کہا گیا تھا کہ زینبیون کی عسکریت پسندی کو کائونٹر کرنے کے لئے فوری ایکشن پلان بنایا جائے۔ لیکن تاحال اس سلسلے میں کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق زینبیون کے لئے زیادہ تر بھرتیاں پارہ چنار، کرم ایجنسی، پشاور، کوئٹہ، سیالکوٹ اور اب کراچی سے بھی کی جارہی ہیں۔ 2015ء میں تشکیل دیئے جانے والے زینبیون بریگیڈ کا ابتدائی مقصد شام میں حضرت زینبؓ کے مزار کا تحفظ کرنا تھا۔ لیکن اب تنظیم کی کارروائیوں کا دائرہ کار بڑھا دیا گیا ہے۔ زینبیون کے جنگجوئوں کو فی کس ایک لاکھ 20 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ دی جاتی ہے۔ ابتدائی طور پر جنگجوئوں کو 45 دن کی تربیت کے بعد شام بھیج دیا جاتا ہے اور باقی 6 ماہ کی عسکری ٹریننگ انہیں دمشق میں دی جاتی ہے۔
زینبیون اور فاطمیون کے نیٹ ورک کے حوالے سے اگرچہ پاکستانی اداروں کے پاس بھی خاصی معلومات ہیں۔ تاہم امریکی حکام نے بھی ان تنظیموں پر کڑی نظر رکھی ہوئی ہے۔ کیونکہ شام کے صدر بشارالاسد کی مخالف عسکری تنظیموں کو سپورٹ کرنے والا امریکہ ان دونوں تنظیموں کے سخت خلاف ہے۔ رواں برس جنوری میں امریکی ٹریژری ڈیپارٹمنٹ نے شام میں بشارالاسد کی سپورٹ میں لڑنے والی جن عسکری تنظیموں کے خلاف پابندیاں عائد کیں، ان میں فاطمیون اور زینبیون شامل ہیں۔ افغانستان میں امریکی اور نیٹو فورسز کے کمانڈر جنرل نکولسن نے 2017ء میں امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروس کمیٹی کو دی جانے والی بریفنگ میں کہا تھا کہ ڈیورنڈ لائن کے دونوں اطراف 21 عسکریت پسند تنظیمیں سرگرم ہیں۔ اس بریفنگ میں قدس فورس کا ذکر بھی کیا گیا تھا، جسے امریکہ نے 2007ء سے بلیک لسٹ قرار دے رکھا ہے۔ قدس فورس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے صدام حسین کی فورسز کے خلاف لڑنے والے کردوں کی سپورٹ کے لئے بنایا گیا تھا۔ اس وقت پاکستان میں زینبیون اور فاطمیون میں بھرتیوں کا ٹاسک اگرچہ کالعدم سپاہ محمد نے سنبھال رکھا ہے ۔ تاہم امریکی حکام کا کہنا ہے کہ یہ دونوں دراصل قدس فورس کی ذیلی تنظیمیں ہیں۔ جن کے جنگجو شام میں صدر بشاالاسد کی سپورٹ میں لڑ رہے ہیں اور ان کی بھرتیاں پاکستان میں بھی ہو رہی ہیں۔ امریکی حکام کے مطابق زینبیون کی تشکیل سے پہلے فاطمیون مسلح گروپ 2011ء میں افغانستان میں بنایا گیا تھا۔ اور اس وقت یہ مسلح گروپ سید مہدی کی سربراہی میں چلایا جارہا ہے۔ 2017ء میں ہیومن رائٹس واچ نے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان کے ایک پڑوسی ملک میں پناہ لینے والے افغان مہاجرین کو بھی فاطمیون میں بھرتی کرکے لڑائی کے لئے شام بھیجا جارہا ہے اور یہ کہ ان میں بیشتر کی عمر 14 برس سے کم ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کے بقول لڑائی کے لئے 15 برس سے کم عمر کے بچوں کو شام بھیجنا جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment