وزرا اور سرکاری افسران سے رات 12 بجے تک گاڑیاں واپس لینے کا حکم

لاہور: سپریم کورٹ آف پاکستان نے وزیراعلی پنجاب، وفاقی وزرا اور سرکاری افسران سے آج رات بارہ بجے تک لگژری گاڑیاں واپس لینے کا حکم دے دیا۔
سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے وزرا اور سرکاری افسروں کے بغیر استحقاق رکھنی جانے والی گاڑیوں کے خلاف ازخود نوٹس کی سماعت ہوئی۔
سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نیئر عباس رضوی نے عدالت کے روبرو پیش ہوئے اور بتایا کہ مجموعی طور پر 105 گاڑیاں وفاقی حکومت اور کابینہ کے زیر استعمال ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ کوئی بھی افسر یا وزیر 1800 سی سی سے زائد گاڑی رکھنے کا اختیار نہیں رکھتا، مولانا فضل الرحمن کے پاس ایک لینڈ کروزر اور تین ڈبل کیبن گاڑیاں ہیں، وفاقی وزرا عابد شیر علی اور کامران مائیکل کے پاس مرسڈیز بینز گاڑیاں ہیں جبکہ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کے پاس بلٹ پروف گاڑی ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ وزیراعظم نے کس اختیار کے تحت گاڑیاں خریدنے کی ہدایت کی؟ عوام ٹیکس کا پیسہ وزرا کی عیاشی کے لئے نہیں دیتے۔
چیف جسٹس نے سابق وفاقی وزیر زاہد حامد کو لگژری گاڑی کے استعمال پر وضاحت کے لئے آئندہ سماعت پر طلب کر لیا۔ عدالت نے قرار دیا کہ استحقاق نہ رکھنے والے دیگر وزرا اور افسران کو بھی طلب کیا جائے گا۔
عدالت نے چیف سیکرٹری پنجاب کو حکم دیا کہ پنجاب میں بغیر استحقاق والی ساری گاڑیاں آج رات 12 بجے تک ضبط کر لی جائیں اور قانون کے برعکس گاڑیاں خریدنے والے بورڈ آف ڈائریکٹرز سے پیسے وصول کئے جائیں گے جبکہ معاملہ نیب کو بھی بھجوایا جا سکتا ہے۔
عدالت نے حکم دیا کہ وزیراعلی پنجاب شہباز شریف سے دو اضافی گاڑیاں واپس لی جائیں جبکہ کابینہ تحلیل ہوتے ہی رانا ثنااللہ اور دیگر سے بھی بلٹ پروف گاڑیاں واپس لی جائیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ انتخابات میں سرکاری خرچ پر بلٹ پروف گاڑیاں چلانے کی اجازت نہیں دیں گے، اگر کسی کو بلٹ پروف گاڑی کی ضرورت ہے تو اپنی جیب سے خرید لے۔