واشنگٹن: زینت و زیبائش کو چار چاند لگانے والا نایاب ہیرا ’ بلیو ڈائمنڈ‘ اپنی ساخت اور بناوٹ کے لحاظ سے منفرد مقام رکھتا ہے لیکن کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ اس ہیرے کے سینے میں زمین کی قدیم تاریخ بھی دفن ہے۔
معروف سائنسی جریدے نیچر میں امریکا کے جیولوجیکل انسٹیٹیوٹ سے وابستہ سائنس دان اوون سمتھ کی قیادت میں سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے نیلے ہیرے پر اپنی تحقیق پیش کی ہے جس میں نیلے ہیرے سے متعلق اہم حقائق اور اس کی رنگت کی سائنسی وجوہات پر گفتگو کی گئی ہے۔
سائنس دانوں نے دنیا بھر سے منتخب کیے گئے نیلے ہیروں کا مطالعہ کیا جس میں 2016 میں 25 ملین ڈالر کے عوض نیلام ہونے والا جنوبی افریقہ کا قیمتی ’ نیلا ہیرا‘ بھی شامل تھا۔ مطالعے سے حیران کن انکشاف سامنے آیا ہے کہ یہ نیلا ہیرا زمین کے اندر 410 میل کی گہرائی میں پیدا ہوتا ہے۔
امریکی سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ نیلے ہیرا کی تشکیل زمین کے نچلے حصے ’ مینٹل‘ میں ہوتی ہے جہاں معدنیات کے کچھ ٹکڑوں کے پھنس جاتے ہیں۔ معدنیات کے ان ٹکڑوں پر کثیف دباؤ کی وجہ سے ’نیلا ہیرا‘ جنم لیتا ہے۔ نیلے ہیرے کی پیدائش میں کاربن کی قلموں کا بھی کلیدی کردار ہوتا ہے۔
چنانچہ ارضیاتی مطالعے میں ’نیلے ہیرے‘ کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے کیوں کہ اس کے علاوہ جتنے بھی ہیروں کی اقسام کی ہے وہ زیادہ سے زیادہ زمین کی اندر محض 125 میل کی گہرائی میں پیدا ہوتے ہیں۔ اس لیے جو زمینی راز نیلا ہیرا افشا کرسکتا ہے وہ کسی اور ہیرے کے بس میں نہیں۔
نیلے ہیرے میں بورون نامی عنصر بھی پایا جاتا ہے جو لاکھوں سال قبل سمندری پانی میں پایا جاتا تھا اور اب حیران کن طور پر زمین کی تہہ کے اندر تک پہنچ چکا ہے اسی بناء پر سائنس دانوں کا خیال ہے کہ نیلے ہیرے پر مزید تحقیق سے اپنے سیارے کے بری اور بحری حصے کی تاریخ معلوم کی جاسکتی ہے۔
سائنس دانوں کا دعوی ہے کہ ’ نیلے ہیرے‘ کو محض زیبائش کی چیز نہ سمجھا جائے بلکہ یہ ارضیاتی تبدیلیوں اور زمین کی ساخت و تاریخ کے مطالعے میں ایک اہم اور موثر ہتھیار ثابت ہو سکتا ہے۔