کراچی سے خیبر تک عوام کشمیر پر بھارتی قبضے اور مظالم کیخلاف سراپا احتجاج ہیں۔فائل فوٹو
کراچی سے خیبر تک عوام کشمیر پر بھارتی قبضے اور مظالم کیخلاف سراپا احتجاج ہیں۔فائل فوٹو

مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کو ایک ماہ ہوگیا

مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی بہیمانہ پابندیوں اورلاک ڈاؤن کو ایک ماہ کا عرصہ ہوگیا ہے۔

کشمیر میڈیا سروس کے مطابق مقبوضہ وادی میں 5 اگست سے بھارتی کریک ڈاؤن جاری ہے۔ ذرائع نقل وحمل اورہرطرح کے مواصلاتی رابطے منقطع ہیں۔دکانیں، دفاتراورتعلیمی ادارے بند پڑے ہیں جس کے نتیجے میں کاروبار زندگی مفلوج ہوگیا ہے۔

5 اگست سے ٹی وی، انٹرنیٹ، اخبار اور فون کی بندش سے مقبوضہ کشمیر کا رابطہ دنیا سے منقطع ہوچکا ہے۔ قابض فوج نے کشمیریوں کے لیے سانس لینا بھی مشکل کردیا ہے۔ وادی میں کھانے پینے کی چیزوں، ادویات اور دیگر ضرورت کی اشیائے کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے جس کے نتیجے میں کشمیری ایک انسانی بحران سے دوچار ہوگئے ہیں۔

بھارتی حکومت نے آئین میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے وہاں سے آرٹیکل 370 اور 35 اے منسوخ کردیا ہے جب کہ ریاست کو دو حصوں میں بھی تقسیم کردیا گیا ہے۔

کرفیو کی وجہ سے جموں و کشمیر کے تاجروں کو مالی طور پر کم از کم 500 کروڑ روپے کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ کاروبار کے ساتھ ساتھ کشمیر کی سیاحتی صنعت کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے جو کشمیریوں کی آمدنی کا اہم ترین ذریعہ ہے۔

رواں سال جون جولائی میں سوا تین لاکھ سیاحوں نے مقبوضہ کشمیرکا دورہ کیا تھا اوراگست میں یہ تعداد صفرہوگئی ہے جس کے نتیجے میں کشمیری دو وقت کی روٹی کو بھی ترس گئے ہیں۔

مقبوضہ کشمیر میں پہلے سے 7 لاکھ بھارتی فوج تعینات تھی اورخصوصی حیثیت ختم کرنے کے اقدام کے باعث مزید 70 ہزار بھارتی فوج تعینات کی گئی ہے جو کشمیریوں کے احتجاج کو پوری طاقت سے کچلنے میں مصروف ہے۔آئے روزعالمی میڈیا کے ذریعے کشمیریوں پر بہیمانہ تشدد کی خبریں سامنے آرہی ہیں۔

اس ساری صورتحال سے یہ نظر آرہا ہے کہ بھارتی حکومت سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کشمیریوں کو معاشی طور پر ختم کرنا چاہتی ہے تاکہ انہیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جاسکے۔

مسئلہ کشمیرپراقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس ہوا جس میں اس نے بھارت سے مقبوضہ کشمیر میں اقوام متحدہ کی قراردادوں پرعمل کرنے کا مطالبہ کیا، تاہم عالمی برادری محض زبانی کلامی باتوں تک محدود ہے اور کشمیریوں کی مدد کے لیے عملا کوئی اقدام نہیں کیا گیا ہے۔