ہندو مت میں گائے کو مقدس جانور سمجھا جاتا ہے،بھارت میں گائے کوماتا یعنی(ماں) کا مقام حاصل ہے اوراس کے ذبیحہ پر پابندی ہے،اسی تناظر میں گایوں کوبحفاظت رکھنے کیلیے ہاسٹل بنانے کی تجویز زیرغور ہے۔
راشٹریہ کام دھینو کمیشن کے سربراہ ولبھ بھائی کتھیریا نے بتایا ہے کہ جگہ کی کمی کے سبب شہروں میں گایوں کو رکھنا آسان نہیں ہوتا۔ اگرحکومت گایوں کے لیے ہاسٹل قائم کرنے کےلیے جگہ الاٹ کردیتی ہے تو 50-25 لوگ ساتھ مل کر ہاسٹل بنانے کا کام کر سکتے ہیں۔ ان ہاسٹلوں کے رکھ رکھاؤ کے لیے وہ ادائیگی بھی کر سکتے ہیں اوراپنے خود کے مویشیوں کے دودھ کا استعمال بھی کرسکتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ”میں پہلے ہی وزارت برائے شہری ترقیات کو گائے ہاسٹل کے لیے ہدایات تیارکرنے کی گزارش کر چکا ہوں، جسے شہری منصوبہ بندی ڈھانچہ میں شامل کیا جا سکتا ہے۔”
بھارتی اخبارکے مطابق کمیشن نے گایوں کے ہاسٹل کے لیے ایک تجویزتیارکی ہے اور مرکز کی مودی حکومت اور ریاستوں کو خاص طور سے اس کے لیے ہر شہر میں 15-10 جگہ الاٹ کرنے کی بات کہی ہے۔ یہ جگہ خصوصی طور پر ان لوگوں کے لیے الاٹ کیے جانے کی بات ہے جو صرف دودھ کے خرچ میں دلچسپی رکھتے ہیں اوراس سے کمائی بھی کرتے ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ کمیشن نے مرکزی وزارت برائے شہری ترقی کو خط لکھنے کے علاوہ کئی ریاستی حکومتوں اور میونسپل کارپوریشنوں کو اس سلسلے میں چٹھی لکھی ہے۔
ان خطوط میں انھوں نے ان سے گائے ہاسٹل قائم کرنے کا عمل شروع کرنے کے لیے کہا ہے۔ چیئرمین نے خط میں لکھا ہے کہ اس طرح کے ہاسٹل کی سوچ گجرات میں کچھ دیہی علاقوں میں پہلے ہی کامیابی کے ساتھ استعمال کی جا چکی ہے۔
کمیشن کے چیئرمین ولبھ بھائی کتھیریا کا کہنا ہے کہ اسے آسانی سے ملک بھر میں شہری علاقوں میں بنایا جا سکتا ہے۔ ان ہاسٹلوں کو ایسی زمین پر قائم کیا جا سکتا ہے جو نجی تاجروں کو کرایہ پر یا پٹّے پر دی جا سکتی ہے یہاں خواہش مند لوگ اپنی پسند کی گائے رکھ سکتے ہیں۔
انھوں نے مزید بتایا کہ اگر گائے کا دودھ اس کے مالک کے استعمال سے زیادہ ہوتا ہے تو وہ دودھ فروخت بھی کر سکتے ہیں۔ گائے کے گوبراور پیشاب کا استعمال کھاد بنانے اورایسے ہاسٹلوں کے رکھ رکھاؤ کے لیے گوبر گیس پلانٹ کے ذریعہ پیسہ بھی کمایا جا سکتا ہے۔