اٹارنی جنرل آفس کو بھی عدالتی فیصلے کی نقل موصول ہو گئی ہے۔فائل فوٹو
اٹارنی جنرل آفس کو بھی عدالتی فیصلے کی نقل موصول ہو گئی ہے۔فائل فوٹو

جسٹس فائز عیسی کی اہلیہ سپریم کورٹ میں بیان قلمبند کراتے ہوئے آبدیدہ ہو گئیں

سپریم کورٹ میں جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں فل بینچ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کیخلاف کارروائی رکوانے کیلیے درخواستوں پرسماعت کی جس دوران جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی اہلیہ نے بیان ریکارڈ کروا دیا۔جسٹس قاضی فائزعیسی کی اہلیہ سپریم کورٹ میں ویڈیو لنک پر بیان قلم بند کراتے ہوئے آب دیدہ ہوگئیں۔

جسٹس فائز عیسی کی اہلیہ نے وڈیو لنک پر بیان ریکارڈ کراتے ہوئے کہا کہ میرے لیے یہ بڑا مشکل وقت تھا ، میرے والد قریب المرگ ہیں ، میری شادی 25 دسمبر 1980 کو ہوئی۔

اہلیہ نے اپنا برتھ سرٹیفکیٹ اور پرانا شناختی کارڈ دکھاتے ہوئے کہا کہ میرا نام سرینا ہے،1983 میں مجھے نہیں معلوم تھا کہ 21 سال بعد لندن میں جائیداد خریدوں گی،شادی کے اکیس سال بعد میں نے لندن میں جائیداد خریدی.

میرا کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ 2003 میں بنا ، تب میرے خاوند جج نہیں تھے، میرا ویزا ختم ہوا تو نئے ویزے کے لیے اپلائی کر دیا، دوسرا ویزا جب جاری ہوا تب وہ سپریم کورٹ کے جج نہیں تھے، جنوری 2020 میں مجھے صرف ایک سال کا ویزا جاری ہوا، یہ ویزا جاری کرنے سے پہلے ہراساں کیا گیا، ہراساں کرنے کے لیے کم مدت کا ویزا جاری کیا گیا۔

اہلیہ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے بتایا کہ اپنوں نے ایسا کیس بنایا جیسے میں ماسٹر مائنڈ مجرم ہوں، میرا نام شناختی کارڈ پر سرینا عیسیٰ ہے،میری والدہ اسپین کی شہری تھیں،میرے پاس اسپین کاپاسپورٹ ہے۔انہوں نے کہا کہ الزام لگایاگیامیں نے جج کے آفس کا غلط استعمال کیا۔

اہلیہ موقف دیتے ہوئے آبدیدہ ہو گئیں اور بتایا کہ پہلی جائیداد 2004 میں برطانیہ میں خریدی جس کے لیے پاسپورٹ کو قبول کیا گیا، کراچی میں امریکن اسکول میں ملازمت کرتی رہی ، ریحان نقوی میرے ٹیکس معاملات کے وکیل تھے، گوشوارے جمع کرانے پر حکومت نے مجھے ٹیکس سرٹیفکیٹ جاری کیا، میرا ٹیکس ریکارڈ کراچی سے اسلام آباد منتقل کر دیا گیا، ایف بی آر سے ریکارڈ کی منتقلی کا پوچھا تو کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

سرینا عیسیٰ نے بتایا کہ زرعی زمین کی دیکھ بھال میرے والد کرتے تھے، حکومت کو میری زمین کے بارے میں پتہ ہے۔ اہلیہ نے فارن کرنسی اکاؤنٹ کا ریکارڈ دکھاتے ہوئے کہا کہ 2003 سے 2013 تک رقم اسی اکاؤنٹ سے باہر گئی، پیسہ بینک اکائونٹ سے لندن بهیجا گیا، جس اکائونٹ سے پیسہ باہر گیا وہ میرے نام پر ہے.
ایک پراپرٹی 26300 پائونڈ میں خریدی گئی، بنک کے فارن کرنسی اکاؤنٹس میں سات لاکھ پائونڈ کی رقم ٹرانسفرکی گئی، میرا لندن اکائونٹ بهی صرف میرے نام پر ہے.

اہلیہ نے بتایا کہ میں ایف بی آر گئی مجھے کئی گھنٹے انتظار کرایا،ایک بندے سے دوسرے بندے کے پاس بھیجا گیا، 236000 پاونڈز سے 2013 میں تیسری جائیداد خریدی، اس پراپرٹی میں میرا بیٹا رہتا ہے، 270000 پاونڈز سے پراپرٹی اپنے اور بیٹی کے نام خریدی، یہ پراپرٹی میرے خاوند کے نہیں میرے اور بیٹی کے نام ہے،2 جائیدادیں کرایہ پر دے دی گئیں، تیسری پراپرٹی میں بیٹا رہتا ہے، میرے بیٹے کو انگلینڈ میں ہراساں کیا گیا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے سرینا عیسیٰ سے کہا کہ آپ کے حوصلے کی داد دیتے ہیں،آپ کو ٹیکس مین کے پاس جانا ہو گا ، امید کرتے ہیں ٹیکس کی حکام آپ کو عزت دیں گے،آپ بہت بہادراورحوصلہ مند خاتون ہیں، ہمارے پاس مقدمہ میرٹ پر سننے کا حق نہیں، ہم آپ کے حوالے سے مطمئن ہیں، خریداری کے ذرائع سے بھی مطمئن ہیں، اس پر فیصلہ متعلقہ اتھارٹی نے کرنا ہے،جج کی اہلیہ نے ایف بی آر کی بہت شکایت کی ہے۔

فروغ نسیم نے کہا کہ ایف بی آر نے زیادتی کی تو براہ راست شکایت وزیراعظم کے پاس جائیگی۔ عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔

قبل ازیں حکومتی وکیل فروغ نسیم نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ بدنیتی پر فائنڈنگ دینے پر جوڈیشل کونسل کے سامنے کوئی چیز مانع نہیں، کونسل بدنیتی کے ساتھ نیک نیتی کا بھی جائزہ لے سکتی ہے۔جسٹس عمر عطائ بندیال نے کہا کہ کسی جگہ بدنیتی ہو تو عدالت جائزہ لینے کے لیے بااختیار ہے اور اپنے اختیارات پر سمجھوتہ نہیں کرے گی۔

فروغ نسیم نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ تشدد کے بغیر حاصل مواد قابل قبول دستاویز ہیں ، برطانیہ میں بھی جاسوسی اور چھپ کر تصویر بنانے کو قابل قبول شواہد قرار دیا گیا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے آپ کہہ رہے ہیں میری جاسوسی ہو سکتی ہے ، میں گالف کلب جاتا ہوں کیا میری تصاویر لی جاتی ہیں، یہ تو ایسے ہی ہو گا جمہوریت سے فاش ازم کی طرف بڑھا جائے۔

فروغ نسیم نے جواب دیا کہ میں فاش ازم کی بات نہیں کر رہا ، یہاں بات شواہد کے اکھٹا کرنے کی ہو رہی ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ کوئی نہیں کہتا کہ جج جوابدہ نہیں، جج چاہتا ہے کہ میری پراﺅیسی بھی ہو اور میری عزت کا خیال بھی رکھا جائے۔

جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ ملک میں احتساب کے نام پر تباہی پیدا ہو رہی، ہوسکتا ہے کہ ملک میں جاری احتساب پر بھی کبھی کوئی فیصلہ لکھیں، ضیا المصطفی نامی شخص کے پاس اختیار نہیں تھا کہ نجی جاسوس کی خدمات حاصل کرے،مقصد کسی نہ کسی طرح جج کو سامنے لانا تھا، تمام کارروائی کے بعد ڈوگر کو لاکر کھڑا کردیا گیا، میں اپنی تفصیلات آرام سے نہیں لے سکتا تو ایک جج کی تفصیلات وحید ڈوگرکے پاس کیسے آئی۔

جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ انجینئرنگ کے الزامات لگتے ہیں، مجھےافسوس ہے کہ اس میں ہمارے ادارے کو استعمال کیا گیا ہے۔