علی مسعود اعظمی
ایرانی ایٹمی پروگرام کے خالق اورماہر طبیعات محسن فخری زادے کو سیٹلائٹ کنٹرولڈ ہتھیاروں سے نشانہ بنایا گیا۔ یہ انکشاف ایرانی انٹیلی جنس اورسینئر سیکیورٹی تفتیش کاروں نے کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ محسن فخری زادے کو نشانہ بنانے کیلئے ریموٹ کنٹرولڈ سسٹم تیار کیا گیا تھا۔ حملے میں کسی انسان کا موقع پر کوئی عمل دخل بظاہر دکھائی نہیں دیا۔
واضح رہے کہ اسرائیلی و امریکی افواج میں ریموٹ کنٹرولڈ مشین گنوں سے حملوں کا رواج عام ہے۔ لیکن یہ ایسا پہلا موقع ہے کہ جس میں کسی ہائی پروفائل ٹارگٹ کو یوں نشانہ بناکر قتل کیا گیا ہے۔ اماراتی جریدہ ’’دی نیشنل‘‘ اس بات کی تصدیق اپنی رپورٹ میں بھی کرچکا ہے کہ اسرائیلی افواج فلسطینی حریت پسندوں کو ریموٹ کنٹرولڈ مشین گنوں اور سیٹلائٹ بیس کیمروں کی مانیٹرنگ کی مدد سے ٹریس کرکے قتل کرتے رہے ہیں۔
ادھر اسرائیلی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ ایرانی ایٹمی پروگرام کے سرخیل سائنسدان محسن فخری زادے کے قتل کے بعد ایران نواز لبنانی ملیشیا حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ اسرائیل کا اگلا ٹارگٹ ہوسکتے ہیں۔ اسرائیلی نیوز ’’چینل تھرٹین‘‘ نے دعویٰ کیا ہے کہ ماضی میں کئی بار اسرائیلی افواج سے براہ راست ٹکر لینے والی طاقتور ملیشیا حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کسی بھی ممکنہ امریکی و اسرائیلی حملے کا ادراک کرتے ہوئے زیر زمین چلے گئے ہیں۔
لبنان سے ملنے والی اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ محسن فخری زادے کے قتل کے بعد حزب اللہ نے اپنے قائد حسن نصر اللہ کی سکیورٹی انتہائی سخت کردی ہے۔ حزب اللہ اور ایران کو خدشہ ہے کہ حسن نصراللہ امریکا اور اسرائیل کا اگلا ممکنہ ہدف بن سکتے ہیں۔ عبرانی ٹی وی چینل کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ حسن نصراللہ نے ہر قسم کی نقل وحرکت موقوف کرکے سیکورٹی عملہ کو اپنے ٹھکانوں پر موجود رہنے کی ہدایت کردی ہے۔ ’’ٹائمز آف اسرائیل‘‘ نے بھی دعویٰ ہے کہ فخری زادے کے قتل کے بعد خطے میں ایرانی حمایت یافتہ طاقتیں خود کو غیر محفوظ سمجھ رہی ہیں۔
ایران سے ملی اطلاعات کے مطابق محسن فخری زادے کے قتل کیس میں اب تک کسی بھی گرفتاری کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔ کیونکہ جائے واردات پر فخری زادے کی اہلیہ اور ان کے محافظ کمانڈوز کے سوا اور کوئی نہیں پایا گیا، جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ ان کو ریمورٹ یا سیٹلائٹ کنٹرولڈ مشین گن سے فائرنگ اور بعد ازاں دھماکے کا نشانہ بنایا گیا۔
دوسری جانب شام اور لبنان کی سرحد پر اسرائیلی فوج ہائی الرٹ ہے۔ بالخصوص اسرائیلی فضائیہ اور ڈرونز محو پرواز ہیں۔ ایرانی حکام کے مطابق اسرائیلی ایجنٹوں نے پروفیسر فخری زادے کی نقل و حرکت کو مانیٹر کرتے ہوئے ان کی روانگی سے قبل ہی ان پر حملے کیلئے ’’آب سرد‘‘ نامی علاقے میںایک بارود بھری گاڑی کو کھڑا کردیا تھا، جس میں جدید سیٹلائٹس نظام پر مبنی روبوٹ مشین گن بھی تیار تھی۔ اس مشین کی قاتلانہ (killing) رینج ڈیڑھ کلومیٹر ہوتی ہے۔ ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ دشمن اپنی حکمت عملی کے تحت فخری زادے کو ان کی گاڑی سے باہر نکالنے میں کامیاب ہوا۔ کیونکہ جب ایرانی سائنسداں کی گاڑی پر ریموٹ کنٹرولڈ مشین گن کی مدد سے اس کی فرنٹ شیلڈ پر گولیاں برسائی گئیں تو وہ گولیاں فخری زادے کی گاڑی کے بلٹ پروف ہونے کی وجہ سے باہر تو ٹکرائیں، لیکن گاڑی کے اندر داخل نہیں ہوسکیں ۔ گاڑی پر بھرپور طاقت سے گولیاں ٹکرانے سے اندر موجود فخری زادے کو یہ محسوس ہوا کہ ان کی گاڑی پر باہر سے کوئی چیز ٹکرائی ہے۔ اس چیز کو محسوس کرنے والے فخری زادے کی یہ سنگین غلطی تھی کہ وہ اپنی گاڑی سے اس ممکنہ تصادم کو دیکھنے کیلئے باہر نکل آئے۔
اس منظر کو سیٹلائٹ کیمروںکی مدد سے مانیٹر کیا جارہا تھا اور جب دشمن نے یہ دیکھ لیا کہ فخری زادے گاڑی سے باہر آچکے ہیں تو ان پر کچھ فاصلہ پر کھڑی بارود بھری گاڑی میں موجود آٹو میٹک مشین گن سے برسٹ مارا گیا، جس سے فخری زادے کو تین ’’ہائی ویلوسٹی بلٹ‘‘ لگے اور وہ شدید زخمی ہوکر زمین پر گر پڑے۔ اس موقع پر ایرانی حکام نے ان کے محافظوں کے کردار کی تعریف کی کہ ان میں ایک محافظ، فخری زادے کے انتہائی قریب تھا اور اس نے سیٹلائٹ بیس مشین گن کی فائرنگ کی آواز پر خود کو فخری زادے کے سامنے کردیا، جس سے اس محافظ کا جسم مشین گنوں کی گولیوں سے چھلنی ہوگیا۔
اس واردات پر پریشان ایرانی محافظین کا کہنا ہے کہ وہ سمجھ ہی نہیں پائے کہ حملہ آور دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ لیکن پھر بھی فائر مسلسل آرہا ہے۔ اس پر ایرانی محافظوں نے اپنے ہتھیار سے اس بارودی گاڑی کو نشانہ بنایا۔ اسی وقت سیٹلائٹ کنٹرول کرنے والوں نے ریموٹ بٹن دبا کر اس گاڑی کو بارود کی مدد سے دھماکے سے اُڑا دیا۔ ایرانی میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ اس موقع پر اگرچہ کسی فرد کی موجودگی کا ثبوت نہیں ملا، لیکن وہ اس بارودی گاڑی کو یہاں پہنچانے والے افراد کی ٹریکنگ کررہے ہیں۔