ڈیجیٹل آرٹیفیشل انٹیلی جنس نظام پر مبنی پروگرام کیلیے 2 کروڑ ڈالر مختص کیے گئے ہیں۔فائل فوٹو 
 ڈیجیٹل آرٹیفیشل انٹیلی جنس نظام پر مبنی پروگرام کیلیے 2 کروڑ ڈالر مختص کیے گئے ہیں۔فائل فوٹو 

’’جاپان میں روبوٹ رشتے طے کرائیں گے‘‘

رپورٹ:احمد نجیب زادے
جاپان میں شادی کا رجحان نہایت کم ہوتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے جاپان کی آبادی میں متوقع اضافہ نہیں ہو رہا۔ جاپانی حکومت نے اس مقصد کے لیے روبوٹس کی مدد حاصل کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔

نئے ڈیجیٹل آرٹی فیشیل انٹیلی جنس نظام کی مدد سے جاپانی شہروں اور دیہات میں مرد و خواتین کی شادی کیلیے رشتے لگوائے اورآبادی میں مناسب اضافہ کیا جائے گا۔

ٹوکیوکے جاپانی حکام اور وزارت آبادی نے اس پروگرام کی تیاری کی تصدیق کی ہے۔ اس پروگرام کی ابتدائی مالیت 2 کروڑ امریکی ڈالرز ہے جو اس پروگرام کے تیار کرنے والوں کے حوالے کر دیے گئے ہیں اس پروگرام کے ذریعے جاپانیوں کو شادی کے لیے راغب کرنے کے لیے ان کے نفسیاتی رجحان کا اندازہ لگایا جائے گا۔

اس پروگرام کو نفسیاتی ماہرین نے ’’ایموشنل کوشنٹ‘‘ کا نام دیا ہے جس کی مدد سے انسانی سیرت اور اچھائیوں اور سوچ کو فریق مخالف کے سامنے ابھارا جائے گا کیونکہ فی الوقت جاپان سمیت دنیا بھر میں شادیوں کے لیے فریقین مالی یا سماجی حیثیت اور ظاہری حسن کو مد نظر رکھتے ہیں اور سیرت اورذہنی ہم آہنگی کے عنصر کو نظر انداز کردیتے ہیں ۔

جاپان ٹائمزکی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جاپان کی آبادی بڑھانے کا حقیقی مقصد حاصل کرنے کی خاطر آرٹیفیشل انٹیلی جنس منصوبہ پر خطیر رقم خرچ کی گئی ہے اور روبوٹ کے ذریعے جاپانیوں کو شادی کے بندھن میں باندھنے کا یہ منصوبہ اگلے برس باقاعدگی سے کام شروع کردے گا۔

جاپان میں شادیوں کیلیے یہ روبوٹ موزوں رشتے تلاش کرے گا۔ ہم مزاج لڑکے اور لڑکی کو ایک دوسرے سے ملوائے گا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جاپان میں دنیاکی نسبت آبادی کی شرح انتہائی تیزی سے کم ہورہی ہے اور جوانوں اور بچوں کی نسبت جاپانی معاشرے میں معمر افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس جاپانی حکومت کے اندازے کے برخلاف 8 لاکھ 65 ہزار بچے کم پیدا ہوئے۔ یہ صورتحال جاپانی حکومت کیلئے خطرے کی گھنٹی ثابت ہوئی، کہ جاپان میں بچوں کی پیدائش کی شرح بہت کم ہوتی جارہی ہے اسی سبب حکومت نے مصنوعی ذہانت رکھنے والے روبوٹوں کو جاپانی مرد و خواتین کو شادی کے لیے رضامند کرنے کی ذمے داری دینے کا منصوبہ بنایا۔

جاپانی حکومت نے مختلف شہروں کی مقامی حکومتوں کو بھی اس نظام کو متعارف کروانے کی ذمے داری دی ہے۔ جبکہ جاپانی مرد و خواتین کو شادی کیلئے رضامندی پر مالی امداد اور پیکیج دیا جائے گا۔

جاپانی ماہرین سماجیات کا کہنا ہے کہ پڑھی لکھی اوراعلیٰ تعلیم یافتہ جاپانی خواتین اپنے کیریئرکی تکمیل کے دوران ایک اونچے سماجی مقام پر پہنچ چکی ہیں۔ اسی لئے کوئی مرد ان کے مساوی یا ہم پلہ سمجھ نہیں آیا اور یوں یہ ہائی پروفائل خواتین شادی کرنے سے کتراتی ہیں اوران کی یہ مردم بیزاری شادیوں کے بحران اور آبادی میں کمی کی وجوہات بن رہی ہیں۔

جاپانی سماجی ایکسپرٹ ’’توکاشی سوہارو‘‘ کہتی ہیں کہ جاپان میں شادیوں کیلئے فریقین ایک دوسرے کی صرف ظاہری صورت، عمر اور آمدنی ہی دیکھتے ہیں۔ لیکن روبوٹ انسانوں کے اندر ظاہری خوبصورتی کے علاوہ ان کی دیگر بہت سی خفتہ صلاحیتوں اور نادیدہ شخصی خواص کو عیاں کرسکتے ہیں۔ اس روبوٹ پروگرام کی مدد سے جاپانی کنواروں کی سماجی و ذات دلچسپیاں، مشاغل اوراپنی اقدار سے لگاؤ کو اجاگرکیا جائے گا جس سے ہم مزاج مرد و خواتین شادی پر رضامند ہوسکتے ہیں اور وہ قائل ہوسکتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ اب جاپان نے آر ٹی فیشل انٹیلی جنس کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کو بروئے کار لانا شروع کر دیا ہے اور کمپیوٹرائزڈ سافٹ ویئرز کی مدد سے رشتہ کرانے کی اسکیموں کی فنڈنگز کا آغاز کردیا ہے۔ جس میں لوگوں کو ایک اچھا ’’جیون ساتھی ‘‘ تلاش کرنے میں مدد دی جائے گی ۔ اب روبوٹ رشتے اور شادیاںطے کرانیوالی روایتی’’ جاپانی مشاطائوں‘‘ کی جگہ لے لیں گے۔ اس فیصلے کی منظوری جاپانی کابینہ نے دے دی ہے۔

جاپانی سماجی ماہرین اور وزارت آبادی سمیت حکومتی عمائدین کو توقع ہے کہ ٹیکنالوجی کے استعمال سے جاپانی عوام ’’شادی -خانہ آبادی‘‘کی جانب راغب ہوں گے اور یوں گھٹتی ہوئی جاپانی نسل اور آبادی کوبھی بڑھانے میں مدد ملے گی۔

اس سلسلہ میں جاپانی حکام کی جانب سے اندازہ لگایا گیا ہے کہ 2017ء میں 12 کروڑ 80 لاکھ والی جاپانی آبادی کے کم ہونے کی رفتار اسی طرح برقرار رہی تو صدی کے اختتام تک جاپان میں 5 کروڑ سے کچھ زائد کی آبادی ہی باقی رہے گی کیونکہ جاپانیوں کی شادیوں میں کوئی دلچسپی نہیں رہی۔

جاپانی صنعتی اداروں کو بھی تشویش ہے کہ شادیوں کے رجحان اور آبادی کی کم شرح کی وجہ سے اس وقت بھی جاپان بھر میں ہر سطح پر کام کرنے والی افرادی قوت کی شدید قلت ہے اور جاپانی اداروں کو دنیا بھر سے مزدور اور کام کے افراد کی طلب پوری کرنے کیلیے اشتہارات دینے پڑتے ہیں ۔

ایک رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ دنیا میں صرف جاپان ہی ایسا ایک ملک نہیں ہے جو شرح پیدائش میں کمی میں سے پریشان ہے اور آبادی میں مناسب اضافہ کیلئے سرگرم ہے،عالمی سماجی محققین کا کہنا ہے کہ عالمی شرح تولید میں حیرت انگیز کمی کے اثرات سے نمٹنا بجائے خود ایک چیلنج ہے اور اس وقت دنیا پوری طرح سے اس جوکھم سے نمٹنے کیلئے تیار نہیں ہے۔

رچرڈ اسپنسر برطانوی محقق کہتے ہیں کہ عالمی افق پر بچوں کی مسلسل پیدائش میں کمی کا واضح مطلب یہی ہوگا کہ اس صدی کے اختتام تک ہر ملک کی آبادی میں کمی واقع ہو جائے گی اورپرتگال-تھائی لینڈ-سنگاپور-اسپین -اٹلی اور جاپان سمیت کم و بیش 23 ممالک کی آبادی سن 2100ء تک نصف ہی رہ جائے گی اوران معاشروں میں صرف بڈھے ہی باقی رہ جائیں گے اور جوان خال خال دکھائی دیں گے۔

اگرچہ کہ جاپان میں پہلے ہی کافی ادارے اور لوگ روایتی طریقہ سے رشتے لگوانے کا کام سر انجام دے رہے ہیں لیکن آرٹی فیشیل انٹیلی جنس نظام کو متعارف اورچلانے والوں کویقین ہے کہ یہ نظام جوڑے بنانے کا زیادہ مناسب طریقہ ہے جس میں لوگ بہتر رشتوں کیلیے اپنے بارے میں تفصیلات فراہم کرتے ہیں۔

جاپان کی کابینہ کے ایک وزیر بتایا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے مخصوص پروگرام کو فروغ دینے کی خاطر ہم مقامی حکومتوں کو ان کی اسکیموں میں رعائتیں دیں گے ۔جس سے امید ہے کہ جاپان کی مسلسل گرتی شرح پیدائش کی اوسط میں دوبارہ اضافہ ممکن بنایا جا سکے گا۔

واضح رہے کہ جاپانی اسپتالوں-ریسٹورنٹس سمیت ہوٹلز اور دیگر کمپنیوں میں روبوٹس کا کردار مسلسل بڑھ رہاہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ یہاں بدھ مت کے مندروں میں بھی عبادت کے لیے روبوٹ بھکشوئوں کو لگادیا گیا ہے۔ کیوٹو کے ’’کیوڈائی جی ٹیمپل ‘‘میں روبوٹ بھکشو’’کنان‘‘ بدھ مت کے ماننے والوں کو مذہبی تعلیمات دیتا ہے۔

جاپان میں بودھ مت کے مطابق کنان نامی خاتون’’رحم کی دیوی‘‘ہے ۔اس روبوٹ بھکشوکے ساتھ کارگزار مقامی بھکشوؤں کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت کی مدد سے ایک دن یہ روبوٹ ’’لامحدود حکمت‘‘حاصل کرلے گا۔ بھکشو ٹینشو کا دعویٰ ہے کہ یہ روبوٹ بھکشو کبھی بھی مرے گا نہیں بلکہ یہ خود کو اپڈیٹ کرتا رہے گا اور حکمت میں ڈیٹا کی شکل میں اضافہ کرتا جائے گا۔شاید ایسا کچھ رشتے طے کرانے والے روبوٹوں کے ساتھ بھی ہو۔