علامتی تصویر

گلابی آنکھوں کی حفاظت کے لیے گلابی اکتوبر

چٹیاں کلائیاں، گلابی آنکھیں، محبوبہ کے ہونٹوں کو گلاب اور آنکھوں کو غزل کہنے والے مردوں کے اس معاشرے میں عورت کو اپنے مسائل پر بات کرنے پر آخر بے شرم اور بے حیا کے القابات سے کیوں نوازا جاتا ہے؟

حال ہی میں میری ملاقات ایک خاتون سے ہوئی۔ جو کینسر کے مرض میں مبتلا تھیں۔ مجھے حیرت ہوئی۔ جب وہ مجھے اپنے کینسر  میں مبتلا ہونے کے حوالے سے بتانے پر بلکل نہیں شرمائیں مگر جب میں نے ان سے یہ معلوم کرنا چاہا کہ انہیں کینسر جسم کے کس حصہ میں ہے تو وہ بلکل خاموش ہوگئیں۔ ایسا کیوں ہوا؟

اپنے جسم کے ایک خاص حصے کو نو گو ایریا سمجھنے والی عورت بھی کسی حد تک اپنے مسائل اور صحت کو خراب کرنے میں برابر کی شریک ہے۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد بڑی مشکل اور شرمندگی کی کیفیت میں انہوں نےبتایا کہ انہیں چھاتی کا کینسر ہے۔ چھاتی کا سرطان جسے عام طور پر بریسٹ کینسر بھی کہاجاتا ہے۔ بریسٹ کینسر پاکستان میں موجود ہر 9 میں سے ایک خاتون میں موجود ہے۔ عورت کو اس  حصے (بریسٹ یا چھاتی) میں چاہے کتنی بھی تکلیف ہو بچپن سے کی جانے والی تربیت اس کا ذکر کرنے میں آڑے آجاتی ہے۔ کبھی یہ سوچ کر کہ کہیں ابو اور بھائیوں کو نہ پتہ چل جائے، کہیں سسر کو پتہ نہ چلے کہ چھاتی میں تکلیف ہے، جب خاندان میں خبر پھیلے گی تو کیا کروں گی، بے شرمی کی بات ہے کہ چھاتی کا ذکر ہو گا، اس جیسی کئی سوچیں لڑکی یا کسی بھی عورت کو اپنی اس بیماری کے علاج کی طرف جانے سے روکے رکھتی ہے۔

اگر یہ کہاجائے کہ  بچی کے بالغ ہونے پر اس کی چھاتی میں ہونے والی نارمل تبدیلیوں کو جو ایک قدرتی عمل ہے  معاشرے میں موجود فرسودہ رویے اس بچی اور لڑکی کے لیے ایک ایب نارمل چیز بنادیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ ایک جھجھک اور شرم کے پردے کی وجہ سے اپنی ہر تکلیف کو چھپانے پر مجبور ہوجاتی ہے۔

پہلے یہ مرض 50 سے 60 سال کی عمر کی خواتین کو ہوتا تھا مگر اب کم عمر خواتین بھی بہت تیزی سے اس کا شکار ہورہی ہیں۔ یہ مرض لاعلاج نہیں ہے اور اگر اسکی تشخیص اور علاج ابتدائی مراحل میں ہی کرلیا جائے تو متاثرہ خاتون اپنی بقیہ تمام زندگی نارمل طریقے سے گزار سکتی ہے۔ جیسے مسز شہروز گزار رہی ہیں۔ ہماری پڑوسی مسز شہروز کے جسم  میں کچھ سال پہلے بریسٹ کینسر کی تشخیص ہوئی۔ خوش قسمتی سے ان کے گھر والوں نے معاشرتی رویوں کو نظر انداز کرکے انکے علاج پر مکمل توجہ دی اور آج ماشااللہ وہ اپنے بچوں اور گھر والوں کے ساتھ پرسکون اور خوشحال زندگی گزار رہی ہیں۔

اکتوبر کے مہینے کو خواتین میں اس بیماری کے حوالے سے آگاہی کے مہینے کے طور پر منایا جارہا ہے۔ بریسٹ کینسر کے حوالے سے بات کرتے ہوئے طبی ماہرین کا کہنا تھا کہ اگر کسی بھی لڑکی کو اپنی چھاتی پر کسی قسم کی گھٹلی یا لمپ محسوس ہو تو فورا ماہر ڈاکٹر سے رجوع کریں کیونکہ یہ کینسر کی علامت ہوسکتی ہے۔ پمز میں بننے والے بریسٹ کینسر سینٹر کی سربراہ ڈاکٹر عائشہ نے آگاہی واک کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خواتین چھاتی میں ہونے والی کسی بھی معمولی تبدیلی کو نظر انداز نہ کریں اور کسی مستند ڈاکٹر کو دکھائیں۔ ایسی ماں جسے چھاتی کا کینسر ہو چکا ہو انہیں اپنی بیٹیوں کی اسکیننگ اور الٹراساؤنڈ ضرور کروانا چاہیے۔ کیونکہ  انکی بیٹی کو بھی بریسٹ کینسر ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

انکا مزید کہنا تھا کہ سب سے بڑا مسئلہ عورتوں کا بات نہ کرنا ہے۔ پاکستان میں بریسٹ کینسر کی پہلی اسٹیج پر تشخیص صرف 4 فیصد سے بھی کم خواتین میں ہوپاتی ہے۔ یہ بیماری کسی حد تک موروثی بھی ہے یعنی ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہونے کے خدشات موجود ہیں۔ متوازن غذا کا استعمال، ذہنی دباؤ اور ڈپریشن سے بچاؤ، رات کو زیر جامہ اتار کر سونے، سفید یا اسکن کلر کے زیر جامہ کا استعمال کرکے اس بیماری سے بچاؤ ممکن ہے۔

بریسٹ کینسر کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس پر بات کریں۔ اس کے حوالے سے خاندان ، محلے ، اسکول ،کالج ہر لیول پر  آگاہی مہم چلائیں تاکہ خواتین اپنی بیماری کو چھپانے کے بجائے اس پر بات کریں اور اس کے علاج کی طرف جائیں۔ جب عورت کا جسم خالق کائنات کی تخلیق، چھاتی مخلوق انسانی کی غذا کا منبع،  ماہواری نسل انسانی کو آگے بڑھانے کا ایک ذریعہ  ہے تو  پھر یہ عورت کے لئے کسی جرم جیسی شرم کا باعث کیوں سمجھے جاتے ہیں؟