بھارت میں کورونا وائرس کے مریضوں کو بری طرح سے متاثر کرنے والی نئی بیماری ’بلیک فنگس’ کے بعد وائٹ فنگس کے خطرے کا بھی سامنا ہے۔
بھارت میں اب بلیک کے بعد وائٹ فنگس کی وجہ سے خوف بڑھ رہا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق وائٹ فنگس بلیک فنگس سے بھی کہیں زیادہ خطرناک ہے، یہ نہ صرف پھیپھڑوں بلکہ ناخن، جلد، کڈنی اور جنسی اعضا کو بھی بری طرح متاثر کر سکتی ہے۔
جرمن نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو کے مطابق بھارتی حکومت نے گزشتہ روز ہی تمام ریاستی حکومتوں کو ہدایت جاری کی تھی کہ وہ ‘بلیک فنگس’ نامی نئی بیماری کو ایک وبائی مرض کے طور رپورٹ کرے، جس کے دوسرے روز ہی بھارت میں طبی ماہرین نے ایک نئے مرض ‘وائٹ فنگس’ کے لیے متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ نیا مرض بلیک فنگس سے بھی کہیں زیادہ خطرناک ہے۔
وائٹ فنگس یعنی سفید پھپھوند نامی اس بیماری کا سب سے پہلے ریاست بہار میں پتہ چلا جہاں پٹنہ میں پارس اسپتال کے سینیئر ڈاکٹر ارونیش کمار کا کہنا ہے کہ وائٹ فنگس کے مریضوں میں بھی کووڈ 19 جیسی ہی علامات پائی جاتی ہیں تاہم کووڈ 19 کی رپورٹ نیگیٹیو آتی ہے،’’اس کی تشخیص سٹی اسکین اور ایکسرے کی مدد سے ہو پاتی ہے۔‘‘
ان کا کہنا ہے کہ وائٹ فنگس بلیک فنگس سے کہیں زیادہ خطرنک بیماری ہے،’’یہ صرف پھیپھڑے ہی نہیں بلکہ ناخون، جلد، شکم، گردے، دماغ، منہ اور جنسی اعضا کو بھی بری طرح متاثر کر سکتی ہے۔‘‘ ان کے مطابق چونکہ یہ بیماری سب سے پہلے پھیپھڑوں پر اثر انداز ہوتی ہے، اس لیے کورونا وائرس سے متاثر بیشتر افراد کو اس سے سب سے زیادہ خطرہ لاحق ہے۔
بھارتی حکومت نے 20 مئی کو کورونا وائرس کے مریضوں کو بری طرح سے متاثر کرنے والی نئی بیماری ’بلیک فنگس‘ یا سیاہ پھپھوند کی سخت نگرانی کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔ بھارت میں حالیہ دنوں میں کورونا وائرس سے وابستہ اس نئی بیماری میں بھی کافی اضافہ دیکھا گيا ہے۔
طبی نکتہ نظر سے ‘بلیک فنگس’ کا نام مائیکوسس ہے جو ان لوگوں کے لیے مہلک ثابت ہو رہی ہے جن کی قوت مدافعت بہت کمزور ہو۔ وزارت صحت نے اپنے ایک نوٹیفیکشن میں تمام ریاستوں سے کہا ہے کہ وہ اس نئے مرض کے مصدقہ یا پھر مشکوک کیسز سے متعلق تمام معلومات امراض کے نگراں ادارے ‘انٹیگریٹیڈ ڈزیز سرویلینس پروگرام’ تک لازمی طور پہنچائیں۔
ملک میں کورونا وائرس کے شدید بحران کی وجہ سے ہسپتال میں جگہ کی کمی ہے اور ان نئی بیماریوں کی وجہ سے طبی مراکز پر اضافی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ دارالحکومت دہلی نے اس کے علاج کے لیے کئی نئے خصوصی ہسپتال تیار کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔
ڈی ڈبلیو کے مطابق مغربی ریاست مہا راشٹر، جو کووڈ 19 کی دوسری لہر سے بھی بری طرح متاثر ہے، میں بلیک فنگس کے تقریبا دو ہزار نئے کیسز سامنے آئے ہیں۔ ریاست راجستھان اور تیلنگانہ نے تو اس مرض کو بھی وبا کے زمرے میں شامل کر لیا ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق کورونا کا علاج کرانے کے بعد صحت یاب ہو جانے والے مریضوں پر بلیک فنگس کا حملہ اس لیے زیادہ ہو رہا ہے کیونکہ کورونا کے مریضوں کو آئی سی یو میں طویل عرصے تک علاج کے دوران Anti Fungal دوائیں دی جاتی ہیں جس سے ان کی قوت مدافعت کمزور ہوجاتی ہے۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ کورونا کے علاج کے دوران اسٹروئیڈ کے استعمال اور مریضوں میں ذیابیطس کی شکایت بھی بلیک فنگس کا شکار ہونے کی ایک اہم وجہ ہوسکتی ہے۔
خیال رہے کہ بھارت میں گزشتہ تقریباً ڈیڑھ ماہ سے کورونا وائرس کی وبا کا قہر جاری ہے جس کی وجہ سے اموات اور انفیکشن کی شرح میں کوئی خاص بہتری نہیں آ پائی ہے۔ گزشتہ چند روز سے انفیکشن کی شرح میں پہلے کے مقابلے میں کچھ کمی ضرور آئی ہے تاہم اموات کی شرح برقرار ہے۔
گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران بھارت میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کے تقریباً دو لاکھ ساٹھ ہزار مزید نئے کیسز سامنے آئے ہیں۔ گزشتہ روز بھی تقریباً دو لاکھ اسّی ہزار کے آس پاس نئے کیسز سامنے آئے تھے۔ اس کے برعکس گزشتہ ہفتے مسلسل ساڑھے تین لاکھ سے چار لاکھ کے دوران یومیہ کیسز آتے رہے تھے۔
دوسری جانب بھارتی ماہرین نے پیش گوئی کردی ہے کہ ملک میں کورونا کی دوسری لہر جولائی میں ختم ہوگی جبکہ تیسری 6 سے 8 ماہ بعد آئے گی۔
بھارتی وزارت سائنس کی طرف سے مقرر کردہ تین رکنی سائنسدانوں کے پینل نے ”سترا ماڈل“ کے تحت پیش گوئی کی ہے کہ مئی کے آخر میں یومیہ ڈیڑھ لاکھ کیسز سامنے آئیں گے اور جون کے آخر پر یہ تعداد یومیہ بیس ہزار ہوجائے گی۔
ماڈل کے مطابق چھ سے آٹھ ماہ میں تیسر ی لہر متوقع ہے جس کے اثرات بھی دوسری لہر کی طرح ہی رہیں گے۔ لیکن ویکسین کی وجہ سے تیسری لہر میں زیادہ لوگ متاثر نہیں ہوں گے۔