مہنگائی اپنے عروج پرہے کسی کوکوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔فائل فوٹو
 مہنگائی اپنے عروج پرہے کسی کوکوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔فائل فوٹو

حکومت کے خاتمے کیلیے تمام آپشن استعمال کریں گے۔شہباز شریف

لاہور:مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے کہا ہے کہ تحریک انصاف اور پاکستان اکٹھے نہیں چل سکتے، اپوزیشن تمام آئینی سیاسی اور قانونی ہتھیار بروئے کارلائے گی اورقوم کو مایوس نہیں کریں گے۔

پریس کانفرنس میں شہباز شریف نے کہا کہ سیالکوٹ واقعہ سے سر شرم سے جھک گئے، حکومت اس واقعہ کے ذمے داروں کو قرار واقعی سزا دے۔ ماضی میں ایسے واقعات ہوئے تو اسے سیاسی رنگ دیا گیا لیکن ہم نے نہ صرف اس واقعہ بلکہ ماضی قریب میں بھی اس طرح کے کسی واقعہ کو کبھی سیاسی رنگ نہیں دیا۔

انہوں نے کہا کہ معاشی تباہی جاری رہی تو خدانخواستہ پاکستان کو خطر ات لاحق ہو سکتے ہیں۔ کورونا نے صرف پاکستان نہیں پوری دنیا میں تباہی مچائی ہے، لیکن آج مہنگائی کے حوالے سے پاکستان دنیا کی فہرست میں تیسر ے نمبر پر ہے۔ اگر جنگی بنیادوں پرکام نہ کیا گیا تو پھر ہمیں تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا۔

شہباز شریف نے کہا کہ آئی ایم ایف کی نئی شرائط نے پوری قوم کو گلے سے جکڑ لیا ہے، قوم کے ہاتھ اور پاؤں زنجیر سے باندھ دیئے ہیں۔ ہمسایہ ملک80ء کی دہائی میں آئی ایم ایف کے پاس گیا اور آج تیس سال ہو گئے ہیں اس نے اس سے جان چھڑ الی ہے۔ حکومت نے انتالیس مہینوں میں71سالہ تاریخ کا 70فیصد قرضہ لے لیا۔ ہمیں بھی ورثے میں قرضے ملے لیکن ہم نے نہ صرف ادائیگی کی بلکہ دس ہزار میگا واٹ بجلی کے منصوبے لگائے، روڈ انفراسٹرکچر بنایا۔ اگر بلین ٹری منصوبہ سچ ہوتا تو آج سموگ نہ ہوتی۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے قرضوں پرکمیشن بنایا تھا لیکن اس کی رپورٹ نہیں آئی، ہمارے ادوار میں قرضوں میں کرپشن نہیں ملی اگر ملتی تو یہ رات بارہ بجے بھی لوگوںکو اٹھا کراس کا بتاتے۔ تجارتی خسارہ 23 ارب ڈالر کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے، صورتحال کو فی الفور کنٹرول کرنے کیلئے اجتماعی اذہان کو جمع کرنا ہوگا۔ یہ تاریخ کی بدترین نااہل، نا تجربہ کاراورکرپٹ حکومت ہے۔

صدر ن لیگ نے کہا کہ دھاندلی کی پیداوار سلیکٹڈ حکومت کی بد ترین گورننس نے ہر چیز کوتہ و بالا کر دیا ہے۔ آئی ایم ایف کے احکامات پر قوم کو غلام بنا رہے ہیں۔ اگر فی الفور کوئی اجتماعی فیصلہ نہ ہوا تو پاکستان کے مفاد کو سنگین خطرات لاحق ہوجائیں گے، پھر آپ کو دفاع کو بھی قرضے لے کر فنانس کرنا پڑے گا۔ ایک سے زیادہ آئینی سیاسی آپشنز ہوتے ہیں اور ہم اس کے مطابق حکمت عملی بنائیں گے۔