اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق چیف جج گلگت بلتستان کیخلاف توہین عدالت کیس میں فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی اگلی سماعت تک موخرکردی۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان عدالت کے سامنے پیش ہوئے اورکہا کہ میرا پہلے دن سے موقف تھا کہ اس کیس میں رانا شمیم مرکزی ملزم ہے، تین صحافیوں کا معاملہ ثانوی ہے، انصار عباسی یا عامر غوری کا ادارہ ایک بیانیہ بڑھا چڑھا کر بیان کر رہا ہے ، یہ بیانیہ ایک خاص کے لیے جاری ہے جو عدالت کے سامنے بھی نہیں، آج انصارعباسی اورعامرغوری نے کہا کہ اگر بیان کی شکل میں ہوتا تو ہم نا چھاپتے ، ان کے ادارے کو یہ تاثر ختم کرنا چاہیے کہ وہ کسی بیانیے کو بڑھا چڑھا کر بیان نہیں کر رہے۔
ٹارنی جنرل نے انصارعباسی ،عامر غوری اور میر شکیل الرحمن کے خلاف فرد جرم کی کارروائی ملتوی کرنے کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ رانا شمیم کو فئیر ٹرائل دیا جائے لیکن چارج فریم کیا جائے۔
دوران سماعت رانا شمیم کے وکیل نے کہا کہ انصارعباسی نے ہمیشہ عوام تک سچ پہنچانے کی کوشش کی جس پر چیف جسٹس اطہرمن اللہ نےریمارکس دیے کہ کیا آپ کہنا چاہتے ہیں کہ صحافی کو چھوڑکرآپ کے موکل کیخلاف کارروائی کی جائے ؟۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں سابق چیف جج رانا شمیم کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی ،عدالتی معاون فیصل صدیقی نے کہا کہ تین صحافیوں کی حد تک فرد جرم کرنے کے حق میں نہیں،رانا شمیم پر فرد جرم عائد ہونی چاہیے ۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرا پہلے دن سے موقف تھا کہ اس کیس میں رانا شمیم مرکزی ملزم ہیں ۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت کا بھی یہی موقف تھا کہ صحافیوں کا کردار ثانوی ہے مگران کے موقف سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ابھی تک اپنی بات پر قائم ہیں ۔عوام کا عدالتوں پراعتماد نہیں ہو گا تو وہ بھی عدالت نہیں آئیں گے۔
عدالتی معاون ریما عمر نے کہا کہ جسٹس شوکت عزیزنے بہت الزامات لگائے جو میڈیا نے رپورٹ کئے ۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کیا پھر یہ بیان درست ہے جو سزا معطل کی تھی وہ بنچ کسی کے کہنےپر بنا، کیا آپ شک کر رہی ہیں کہ اس کورٹ کے بنچز کسی کے کہنے پر بنتے ہیں ؟۔
عدالتی معاون ریما عمر نے کہا کہ بالکل نہیں ، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ یہاں سیاسی معاملہ نہ اٹھائیں ، شوکت عزیز صدیقی کا معاملہ زیر سماعت ہے ، یہاں زیر بحث نہ لائیں ، پہلے دن سے کہہ رہا ہوں کہ اس عدالت کے جج تک کسی کو رسائی نہیں ، آپ عدالتی معاون ہیں ، پلیز اپنی نشست پر تشریف رکھیں ، رانا شمیم کے وکیل عبداللطیف آفریدی کو سن لیتے ہیں ۔
رانا شمیم کے وکیل لطیف آفریدی نے کہا کہ آج تو ہم چارج کیلیے تیا رہو کرآئے تھے ، انصاری عباسی کوبہت پہلے سے جانتا ہوں ،وہ عوام تک سچ پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس وقت لطیف آفریدی بطورعدالتی معاون دلائل دے رہے ہیں، یہ کہنا چاہتے ہیں کہ صحافی کو چھوڑ دیں ، میرے کلائنٹ کے خلاف کارروائی کی جائے ۔چیف جسٹس کے ریمارکس پر کمرہ عدالت قہقہوں سے گونج اٹھا۔عدالت نے توہین عدالت کیس کی سماعت 20 جنوری تک ملتوی کردی ۔