ہمارے پاس ابھی تک وفاق کا جواب نہیں آیا اور اٹارنی جنرل بھی موجود نہیں۔فائل فوٹو
اٹارنی جنرل اورایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب سمیت دیگرفریقین کو نوٹس جاری کردیا۔فائل فوٹو

ممکن ہے صدارتی ریفرنس واپس بھیج دیں۔سپریم کورٹ

اسلام آباد:سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس پرسماعت کے دوران جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ ممکن ہےکہ صدارتی ریفرنس واپس بھیج دیں،صدر نے آئین کی تشریح کا کہا ہے، تشریح سے ادھر ادھر نہیں جاسکتے۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس سے متعلق دائر درخواستوں پر سماعت ہوئی ، چیف جسٹس کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ پارلیمنٹ میں خواتین اوراقلیتوں کی مخصوص نشستیں ہوتی ہیں، مخصوص نشستوں والے ارکان نے عوام سے ووٹ نہیں لیا ہوتا ہے، مخصوص نشستوں والے ارکان بھی سندھ ہاؤس میں موجود تھے،مخصوص نشستیں پارٹی کی جانب سے فہرست پر ملتی ہیں۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاہے کہ اعتماد توڑنے والے کو خائن کہا جاتاہے ، امانت میں خیانت کرنا بہت بڑا گناہ ہے ، خیانت کی قرآن پاک میں بہت سخت سزاہے۔عدالت نے کہا کہ وزیراعظم ملک کیخلاف کوئی فیصلہ کرے توکیارکن مخالفت نہیں کرسکتا؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملک کیخلاف کام ہونے پررکن خودکوپارٹی سے الگ کرسکتاہے، پارٹی سے اختلاف کرنیوالاشخص کیادوبارہ مینڈیٹ لے سکتاہے؟
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا کوئی رکن بھی ڈکلیئریشن دیتا ہے کہ پارٹی ڈسپلن کا پابند رہے گا،آئین میں کہیں واضح نہیں کہ پارٹی سے وفادار رہنا ہے یا نہیں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے پوچھا کہ کیا ممبر شپ فارم میں رکن ڈکلیئریشن دیتا ہے کہ ڈسپلن کا پابند رہے گا؟ اگر پارٹی ممبر شپ میں ایسی یقین دہانی ہے تو خلاف ورزی خیانت ہو گی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ وزیراعظم نے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا ہوتا ہے،اگر وزیراعظم آئین کی خلاف ورزی کرے تو کیا ممبر ساتھ دینے کا پابند ہے؟ کیا کوئی بھی رکن وزیراعظم پرعدم اعتماد کا اظہار کر سکتا ہے؟
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ پارٹی ٹکٹ ایک سرٹیفکیٹ ہے جس پر انتحابی نشان ملتا ہے،وزیراعظم اور رکن اسمبلی کے حلف میں فرق ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ووٹر انتحابی نشان پر مہر لگاتے ہیں کسی کے نام پر نہیں،پارٹی کے نشان پر الیکشن لڑنے والے جماعتی ڈسپلن کے پابند ہوتے ہیں۔عدالت نے سماعت پیر 28مارچ تک ملتوی کردی۔