اسلام آباد:چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کی دی گئی حتمی مہلت پرلا پتہ شہری حسیب حمزہ کو بازیاب کر کے عدالت پیش کر دیا گیا ، چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے آئی جی کو اپنی زیر نگرانی انکوائری کا حکم دیدیا۔
اسلام آبا دہائیکورٹ میں لا پتہ شہری حسیب حمزہ کی بازیابی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی ، عدالت کی جانب سے آج لا پتہ شہری کو پیش کرنے کی حتمی مہلت دی گئی تھی ، پولیس کی جانب سے لا پتہ شہری کو بازیاب کرکے عدالت پیش کردیا گیا ، چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے شہری سے استفسار کیا کہ آپ کہاں تھے؟ ، شہری حسیب حمزہ نے جواب دیا کہ میری آنکھوں پر پٹی تھی مجھے علم نہیں کہاتھا۔
عدالت نے پولیس سے استفسارکیا کہ اب تک کیا انکوائری کی ہے ؟ ، پولیس کی جانب سے جواب دیا گیاکہ کچھ وقت دیں انکوائری مکمل ہوتے ہی رپورٹ پیش کر دیں گے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ریاست کی کچھ ذمہ داریاں ہیں ،عدالت انہیں کیسے ہدایت دے، پہلے کیسزکا کیا ہوا ؟ ، پولیس کی جانب سے بتایا گیا کہ کچھ کیسز میں انکوائری مکمل ہوچکی ہے، کچھ میں چل رہی ہیں ۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ شہریوں کو تحفط فراہم کرنا ریاستی اداروں کی ذمے داری ہے، سسٹم میں کوئی اپنی ذمہ داری نہیں ادا کرتا ،ایک نظام ہے جس کے تحت ہر ایک کی ذمہ داری ہے، اس عدالت کو ڈائریکشن دینے کی ضرورت تو نہیں ہونی چاہیے،۔
دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون نے کہا کہ وزیراعظم اس عدالت میں پیش ہوئے تھے کام ہو رہا ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کام نہیں ہو رہا، کیا ہو رہا ہے؟، کس نے شہری کو اٹھایا ہے، اس کی تفتیش کون کریگا؟۔ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ شہری بتائے کہ جب اسے اٹھایا گیا تو کیا اس نے کسی کو پہچانا ۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ یہ ریاست کا کام ہے کہ شہریوں کا تحفظ کرے ۔ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ نظام میں خرابیاں تو ہیں، کوئی اپنا کام نیک نیتی سے کرنے کو تیار نہیں ہے، 23اگست کو ایف آئی آر کے اندراج کیلئے درخواست دی گئی، جو درج نہیں ہوئی ، یہ آپ کے لیے ٹیسٹ کیس ہے، پہلے جو کیسز تھے وہ تو پتہ نہیں کدھر چلے گئے، اس عدالت نے آپکو کسی شخص کے خلاف کارروائی سے روکا ہے؟ ، جو بھی کارروائی کرنی ہے وہ قانون کے مطابق تو کریں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ انویسٹی گیشن مکمل ہو تب ہی ذمے داران کا تعین ہو سکے گا، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ پہلے جو انویسٹی گیشنز ہو رہی تھیں انکا کیا ہوا؟ ، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ درخواست گزار کے تحفظات دور ہو چکے درخواست نمٹا دی جائے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پھر کیا اس بات کو جانے دیں یا اسکی تفتیش کیسے ہو گی؟ ، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایف آئی آردرج ہو چکی ہے اسے منطقی انجام تک پہنچانا ہو گا، چیف جسٹس نے حکم دیا کہ آئی جی اسلام آباد پھر ذاتی طور پرسپروائزکرکے 10 دن میں رپورٹ جمع کرائیں۔