کراچی:رپورٹ: ارشاد کھوکھر: کم وبیش 26 ارب روپے مالیت کی لاکھوں بوری گندم کی خوردبرد اور صوبائی محکمہ خزانہ کی جانب سے گزشتہ کئی برسوں سے گندم پر دی جانے والی سبسڈی کی مد میں کم رقم جاری کرنے کے باعث سندھ کا محکمہ خوراک مختلف بینکوں کا تقریبا 146 ارب روپے کا مقروض ہوچکا ہے۔
بینکوں کی شرح سود بڑھ کر 15 فیصد ہوجانے اور تقریبا 96 ارب روپے کے پرانے قرضوں کی ادائیگی نہ کرنے کی وجہ سے محکمہ خوراک پر قرضوں کی مد میں ماہانہ سود کی رقم بھی بڑھ کر اوسطا ایک ارب 23 کروڑ روپے ہوگئی ہے، جس کے نتیجے میں سرکاری گندم کی لاگت میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق چاروں صوبوں کے محکمہ خوراک اور پاسکو کی جانب سے ہر سال گندم خریدی جاتی ہے، جو صوبہ گندم خریداری کا جو ہدف مقرر کرتا ہے، اس کے لیے گندم کی مقرر کردہ امدادی قیمت کے حساب سے وفاقی حکومت متعلقہ صوبوں کے بینکوں سے قرضہ لینے کی حد مقرر کر کے اس کی منظوری دیتی ہے۔ جس کے بعد اسٹیٹ بینک آف پاکستان کمرشل بینکوں کو متعلقہ صوبائی حکومتوں کو مقررہ حد کے مطابق قرضہ دینے کی اجازت دیتی ہے۔
رواں سیزن کے لیے حکومت سندھ نے فی من گندم کی امدادی قیمت 2 ہزار 200 روپے کے حساب سے فی 100 کلوگرام گندم کی امدادی قیمت ساڑھے پانچ ہزار روپے مقرر کی تھی اور خریداری کا ہدف 14 لاکھ ٹن یعنی ایک کروڑ 40 لاکھ بوری مقررکیا تھا، جس کے باعث سندھ کے محکمہ خوراک کے قرضے کی لمٹ میں 77 ارب روپے کا اضافہ کیا گیا۔ محکمہ خوراک پہلے ہی مختلف بینکوں کا تقریبا 96 ارب روپے کا مقروض تھا، اس حساب سے سندھ کے محکمہ خوراک کے قرض لینے کی لمٹ 173 ارب روپے تک بڑھائی گئی تھی لیکن رواں سیزن کے دوران محکمہ خوراک 14 لاکھ ٹن کے ہدف کے مقابلے میں تقریبا 50 ارب روپے مالیت کی 9 لاکھ 10 ہزار ٹن گندم کی ہی خریداری کرسکا۔اس طرح تقریبا 50 ارب روپے نئی گندم خریداری کی مد خرچ ہوئے اور 96 ارب روپے کے پرانے قرضے کے ساتھ اب محکمہ خوراک بینکوں کا تقریبا 146 ارب روپے کا مقروض ہو چکا ہے۔
ذرائع کے مطابق بینک سرکاری محکمے کو امدادی قیمت کے حساب سے صرف گندم کی خریداری کے لیے قرضہ دیتے ہیں۔ خریدی گئی گندم کی ٹرانسپورٹیشن، فیومیگیشن، باردانے اور اسٹیبلشمنٹ چارجز سمیت انسیڈینٹل چارجز وغیرہ کی مد میں جو بھی اخراجات ہوتے ہیں، وہ متعلقہ صوبائی حکومتوں کے ذمے ہوتے ہیں۔ بعد میں گندم فلور ملوں اور آٹا چکیوں کو جاری کرنے کے لiے سرکاری گندم کی قیمت اجراء مقرر کی جاتی ہے۔ محکمہ خوراک کو فی بوری گندم جس قیمت میں پڑتی ہے، اس کے مقابلے میں سرکاری قیمت اجراء جتنی کم ہوتی ہے، وہ رقم سبسڈی کی مد میں صوبائی حکومت کو برداشت کرنا پڑتی ہے۔
فلور ملوں اور آٹا چکیوں کو سرکاری گندم جاری کرنے سے محکمہ خوراک کے اکاؤنٹ میں جو رقم آتی ہے، وہ بینکوں کے قرضے کی واپسی کی مد ادا کی جاتی ہے۔ذرائع نے بتایا کہ محکمہ خوراک پر بینکوں کا جو تقریبا 96 ارب روپے کا پرانا قرضہ رہ گیا ہے، اس ایک وجہ یہ ہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے حکومت سندھ نے گندم پر دی گئی سبسڈی کے مقابلے میں 70 ارب روپے کی رقم محکمہ خوراک کو کم دی ہے، جس کی وجہ سے بینکوں کا قرضہ بڑھ گیا ہے۔ بینکوں کا قرضہ بڑھنے کی دوسری وجہ گندم کی خوردبرد ہے۔ محکمہ خوراک کے افسران و ملازمین کی ملی بھگت سے 20 سے 26 ارب روپے مالیت کی گندم کی لاکھوں بوریاں خوردبرد کی گئی ہیں۔اگر گندم کی وہ لاکھوں بوریاں چوری نہ ہوتیں تو وہ گندم بھی فلور ملوں کو جاری ہونے کی صورت میں اس سے حاصل ہونے والی رقم بھی اکاؤنٹ میں آنے سے بینکوں کے قرضے میں کمی واقع ہوتی۔
ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ سندھ کے محکمہ خوراک نے رواں سیزن کے دوران فی 100کلو گرام ساڑھے پانچ ہزار روپے کے حساب سے گندم خریدی ہے، مذکورہ فی 100 کلوگرام گندم حکومت سندھ کو 7 ہزار 800 روپے سے بھی زائد رقم میں پڑ رہی ہے۔ جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ گندم خریداری کے لیے 50 ارب روپے کے نئے قرضے کے ساتھ تقریبا 96 روپے کا پرانا قرضہ بھی ہے جو واپس نہیں کیا گیا، اس کی مد میں بھی سود کی رقم محکمہ خوراک کو ادا کرنا پڑتی ہے اوراب فی بوری گندم کے انسیڈینٹل چارجز 2 ہزار 300 روپے سے بھی زائد ہوجانے کی بنیادی وجہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے 13 جولائی سے قرضوں پر سود کی شرح بڑھا کر 15 فیصد کرنا ہے۔ جس کے باعث فی بوری گندم پر صرف سود کی مد میں اخراجات ایک ہزار 600 روپے سے زیادہ ہو گئے ہیں جبکہ گندم کی ٹرانسپورٹیشن، باردانے سمیت دیگر انسیڈینٹل اخراجات بھی تقریبا 700 روپے تک ہیں۔اس طرح سود کی شرح میں اضافے اور 96 ارب روپے پرانا قرضہ ادا نہ ہونے کے باعث محکمہ خوراک پر تقریبا 100 فیصد اضافے کے ساتھ لئے گئے قرضوں کے ماہانہ سود کی ادائیگی اوسطا ایک ارب 23 کروڑ روپے ہو گئی ہے۔
یاد رہے کہ حکومت سندھ نے یکم اکتوبر سے سرکاری گندم جاری کرنے کا اعلان کیا ہے، گندم جاری ہونے سے قبل سندھ کابینہ گندم کی قیمت اجرا مقرر کرے گی اور سرکاری گندم کی قیمت اجرا مقرر ہونے کے بعد یہ بات ظاہر ہوگی کہ صوبائی حکومت فی بوری گندم پر رواں سیزن کے دوران کتنی سبسڈی برداشت کرے گی۔