کراچی :رپورٹ :محمد اطہر فاروقی :سندھ میں سیلاب متاثرین کو بیماریوں نے گھیرلیا ۔ صوبے بھر میں سیلاب متاثرہ علاقوں میں ساڑھے 25لاکھ سے زائد افراد بیماریوں میں مبتلا ہوگئے ہیں ۔دمے،سانس،ڈائریا،آنکھوں کی مختلف بیماریوں سمیت جلدی امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں ۔
ذرائع کے مطابق سندھ میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران بچوں اور خواتین سمیت 8افراد مختلف بیماریوں میں جان کی بازی ہار گئے ۔ عالمی ادارہ صحت نےسیلاب کے بعد پاکستان میں بیماریوں اور اموات کی صورت دوسری آفت کا خطرہ قرار دیا ہے۔حاملہ خواتین سمیت بیمار افرا بہتر غذا اور دیکھ بھال کو بھی ترس گئے ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ مریضوں کی تعداد میں اضافے کی وجہ سے صوبے کے بڑے سرکاری اسپتالوں میں ایک بیڈ پر 4سے 5بچے زیر علاج ہیں ۔
تفصیلات کے مطابق سندھ بھر میں سیلاب متاثرہ علاقوں میں بیماریوں کے اضافے سے یومیہ 8سے 10افراد جان کی بازی ہار رہے ہیں ۔عالمی ادارہ صحت نےسیلاب کے بعد پاکستان میں بیماریوں اور اموات کی صورت دوسری آفت کا خطرہ قرار دیا ہے۔معلوم ہوا کہ صوبے بھر میں سیلابی صورتحال کے بعد مختلف بیماریاں وبائی شکل اختیار کر چکی ہیں ،بیماریوں میں اضافے کی وجہ سے محکمہ صحت سندھ طبی امداد فراہم کرنے میں بھی ناکام ہوچکی ہے ،12سو سے زائد صحت کے مراکز تباہ ہونے کی وجہ سے لاکھوں افراد کیمپوں میں علاج کروانے پر مجبور ہیں ،ملک بھر کی مختلف فلاحی تنظیموں کی جانب سے بھی سیلاب متاثرہ علاقوں میں عوام کو طبی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں ،سڑکوں پر سیلاب متاثرہ افراد اور سرکاری ریلیف کیمپوں میں بھی طبی امداد فراہم کرنے کے کیمپ قائم کیے گئے ہیں البتہ ان کیمپوں میں بھی مجموعی طور پر تمام طبی سہولیات موجود نہیں ہیں ۔
امت کی جانب سے صوبے بھر میں بیماریوں کے حوالے سے محکمہ صحت سندھ سے معلومات حاصل کیں تو معلوم ہوا کہ سندھ میں سیلاب کے باعث 25 لاکھ 75 ہزار سے زائد افراد بیماریوں میں مبتلا ہو گئے۔ صوبے بھر میں 24 گھنٹوں کے دوران سانس، دمے اور سینہ کی بیماریوں کے12ہزار27 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ مختلف جلدی امراض کے 19 ہزار 746 کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔ محکمہ صحت کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ڈائیریا کے 17 ہزار 919 سے، کتے کے کاٹنے کے 4، ملیریا کے 2 ہزار 622 اور ڈینگی کے 64 کیسز سامنے آچکے ہیں جبکہ آنکھوں کی مختلف بیماریوں کے 19 ہزار 324 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ محکمہ کے مطابق دیگر بیماریوں کے 40 ہزار 498 افراد مختلف میڈیکل کیپمس میں لائے جا چکے ہیں۔
صوبائی محکمے صحت نے علاج کے حوالے سے بتاتے ہوئے کہا کہ24 گھنٹوں میں سندھ بھر مزید 90 ہزار مریضوں کا علاج کیا گیا ہے، یکم جولائی سے اب تک صوبے بھر کے مختلف میڈیکل کیمپوں میں مجموعی طور پر 25 لاکھ مریضوں کا علاج کیا جاچکا ہے۔ سندھ ڈائریکٹوریٹ جنرل ہیلتھ سروسز کی رپورٹ کے مطابق اب تک مجموعی طور پر جلدی بیماریوں کے 5 لاکھ 94 ہزار241 مریضوں کا علاج کیا گیا، اس کے بعد ڈائریا کے 5 لاکھ 34 ہزار 800، ملیریا کے 10 ہزار 702، ڈینگی کے ایک ہزار 401 اور دیگر امراض میں مبتلا 12 لاکھ 74 ہزار 501 مریضوں کا علاج کیا گیا ہے جبکہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 90 ہزار 398 مریضوں کا علاج کیا گیا جن میں سے 17 ہزار 919 کو ڈائریا، 19 ہزار 746 کو جلد کی بیماری، 695 کو ملیریا اور 388 کو ڈینگی تھا۔
امت کو بیماریوں سے اموات کے حوالے سے حاصل معلومات کے مطابق صوبے بھر میں 24 گھنٹوں کے دوران 8افراد مختلف بیماریوں سے جان کی بازی ہار چکے ہیں ،خیرپور میں 24 گھنٹوں میں مختلف امراض کے باعث کیمپوں میں 6 سیلاب متاثرین کا انتقال ہو گیا، کوٹ ڈیجی میں ملیریا کے باعث 8 سالہ آصفہ اور 2 سالہ وکیلا کا انتقال ہو گیا، ٹھری میرواہ میں گیسٹرو سے 3 سالہ بچی اور فیض گنج اور نارا میں 2 بچوں اورایک خاتون کا انتقال ہو گیا۔ ضلع گھوٹکی میں خانپور مہر کے نواحی گاؤں میں ملیریا کے باعث 7 سالہ بچہ انتقال کر گیا، گھوٹکی میں وبائی امراض سے جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد 15 ہو گئی ہے۔
کندھ کوٹ میں سیلاب متاثرہ شخص راشن لینے تنگوانی پہنچا، راشن تو نہ مل سکا، تاہم وہ زندگی ہی کی بازی ہار گیا، مرنے والا شخص سڑک پر مردہ حالت میں پڑا رہا، ایمبولینس کی عدم موجودگی کی وجہ سے گاؤں والوں نے اس کی لاش اسپتال منتقل کی۔ اسپتال انتظامیہ کے مطابق مرنے والا شخص کچھ روز سے بھوکا پیاسا تھا، جس کے باعث اس کی موت واقع ہو گئی۔ اس حوالے سے دادو کے ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسر (ڈی ایچ او) ڈاکٹر محمد علی سمیجو نے کہا کہ ضلع کے سیلاب سے متاثرہ لوگوں میں خاص طور پر گیسٹرو اور ملیریا سمیت مختلف بیماریاں سامنے آرہی ہیں۔
دادو کے ایک میڈیکل کیمپ کے افسر ڈاکٹر ارشاد میمن نے بتایا کہ 25 اگست سے 17 ستمبر تک کم از کم 18 ہزار 289 حاملہ خواتین کی اسکریننگ کی گئی۔ دادو سول ہسپتال کے ڈاکٹر کریم میرانی نے بتایا کہ بیماریوں میں بہت اضافے کی وجہ سے ہسپتال مریضوں سے بھر گیا ہے، مریضوں کی تعداد بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے ہمیں 4 سے 5 بچوں کو ایک ہی بسترپر رکھنا پڑ رہا ہے۔