تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے تین قریب ترین ساتھی اپنے پارٹی قائد کی نظر میں مشکوک قرار پا گئے ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پارٹی کی کور کمیٹی کے اجلاس میں جن رہنماؤں کی طرف نام لیے بغیر عمران خان نے اشارہ کیا کہ وہ انہیں بائی پاس کرکے اسٹبلشمنٹ سے ملاقاتیں کر رہے ہیں وہ کوئی عام پارٹی رہنما نہیں بلکہ عمران خان کے وہ تین معتمد ترین ساتھی ہیں جو ہمیشہ تحریک انصاف سربراہ کے قریب رہے اور ان کے مشوروں کو پارٹی کے فیصلوں میں کلیدی حیثیت حاصل رہی ۔ ذرائع کے مطابق عمران خان نے جن رہنماؤں کی طرف اشارہ کر کے شک یا عدم اعتماد کا اظہار کیا ان میں سابق وزیر دفاع پرویز خٹک ، سابق وزیر خزانہ اسد عمر اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی شامل ہیں۔ اگرچہ چوتھی شخصیت کے حوالے سے صورتحال واضح نہیں تاہم ذرائع کا دعوی ہے کہ یہ نام فیصل واوڈا کا ہو سکتا ہے جن کے ماضی میں اسٹبلشمنٹ کے ساتھ قریبی تعلقات رہے ہیں۔۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہی وجہ ہے فیصل واوڈا نے گزشتہ اجلاس میں خود کو شکوک وشبہات سے بالاتر ثابت کرنے کے لئے کہا تھا کہ عمران خان نے آستین کے سانپ پال رکھے ہیں ۔ذرائع کا دعوی ہے کہ جن رہنماؤں پر عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ سے قربت یا "ساز باز” کا شبہ ہے،یہ سب وہی لوگ ہیں جن کی قربت کا فائدہ اٹھا کر عمران خان ماضی میں اپنے مسائل حل کراتے رہے ہیں یا یوں کہیے کہ انہیں استعمال کرتے رہے ہیں تاہم اب عمران خان کو خدشہ ہے کہ ان میں سے ایک یا دو لوگ "مائنس ون” فارمولے پر عمل درآمد کی صورت میں ان کی جگہ لینے کے لیے تیار ہیں اور پس پردہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اس حوالے سے رابطے بھی کر رہے ہیں ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کچھ ایسے ہی جذبات عمران خان شیخ رشید کے حوالے سے بھی رکھتے ہیں جن کی شہرت ہمیشہ "پنڈی بوائے” کی رہی ہے تاہم سے شیخ رشید الگ پارٹی شناخت رکھنے کی وجہ سے تحریک انصاف کے ڈسپلن میں نہیں آتے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اسٹبلشمنٹ کے ساتھ عمران خان کے بے لچک رویے کو اب صرف شیریں مزاری اور فواد چوہدری جیسے گنے چنے رہنماؤں کی حمایت حاصل رہ گئی ہے اور ان دونوں کا تحریک انصاف سے تعلق کچھ زیادہ پرانا نہیں ہے۔ ۔ اس سے پہلے شہباز گل بھی شدت پسندانہ موقف رکھنے والے ہراول دستے میں شامل تھے ہم گرفتاری اور جیل یاترا کے بعد امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ وہ ماضی جیسا رویہ نہیں اپنائیں گے۔