یہ واضح نہیں کیا کہ آپریشن کس علاقے میں کیا جارہا ہے۔فائل فوٹو
یہ واضح نہیں کیا کہ آپریشن کس علاقے میں کیا جارہا ہے۔فائل فوٹو

سوات میں ٹی ٹی پی کیخلاف بڑا آپریشن شروع

سوات: ملک کے سیاحتی مقام ضلع سوات میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے دہشتگردوں کی موجودگی کی اطلاعات پر پولیس اور فوج نے مشترکہ بڑا آپریشن شروع کردیا۔

عرب نیوز کے مطابق حکومتی عہدیداروں اور پولیس حکام نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اس وقت سوات میں 300 ٹی ٹی پی دہشت گرد موجود ہیں، جن کی تلاش کے لیے فوج اور پولیس نے مشترکہ طور پر بڑا آپریشن شروع کردیا ہے۔ ایک اعلیٰ پولیس افسر نے نام شائع نہ کر نےکی شرط پر بتایا کہ ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں کی تلاش کیلئے آپریشن جاری ہے تاہم انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ آپریشن کس علاقے میں کیا جارہا ہے۔

وزیر داخلہ راناثناء اللہ ، وزارت داخلہ کے ترجمان اور آئی ایس پی آر نے معاملے پر تبصرے سے انکار کیا ہے ، جبکہ مؤقف کیلیے ٹی ٹی پی سے رابطہ قائم نہیں ہوسکا۔ ایک سیکورٹی اہلکار نے بتایا کہ اس وقت علاقے میں فورسز الرٹ ہیں اور امن و امان کے قیام کیلئے ہر ممکن اقدامات کیے جارہے ہیں۔ ایک سینئر اہلکار نے بتایا کہ حالیہ ہفتوں میں سوات کی تحصیل مٹہ کے پہاڑی علاقوں میں 300 شدت پسندوں کی موجودگی کی نشاندہی کی گئی ہے۔

ایک پولیس افسر نے بتایا کہ سوات میں مختلف مقامات پر چوکیاں بحال کردی گئی ہیں اور آپریشن میں شامل ہونے کیلیے ایس ایس جی کمانڈوز بھی پہنچ چکے ہیں۔ دوسری جانب صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف نے بھی ٹی ٹی پی دہشتگردوں کی منتشر حالت میں موجودگی کی تصدیق کی ہے تاہم انہوں نے اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ آپریشن میں فوج بھی شامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گرد کسی خاص علاقے میں موجود نہیں تاہم وہ خاموشی سے نقل و حرکت کررہے ہیں۔بیرسٹر سیف کے مطابق جس علاقے میں دہشتگردوں کی موجودگی اطلاعات ملتی ہیں فورسز وہاں آپریشن کرتے ہوئے انہیں گرفتار یا ہلاک کردیتی ہیں۔ ایک سوال پر بیرسٹر سیف کا کہنا تھا کہ ماضی کی طرح مکمل فوجی آپریشن کا فیصلہ وفاقی حکومت اور فوجی سربراہان کا اختیار ہے۔

سوات میں ٹی ٹی پی مخالف رہنما اور قومی جرگے کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ ہم نے چار ماہ قبل ہی دہشتگردوں کی واپسی کے خدشات ظاہر کیے تھے تاہم اس وقت انتظامیہ نے اسے اہمیت نہیں دی۔ گزشتہ ماہ فوج نے سوات میں ٹی ٹی پی کی موجودگی کی اطلاعات کو مسترد اور افواہیں قراردیا تھا،تاہم گروپ کی واپسی کے خدشات میں اس وقت شدت نظر آئی جب مقامی لوگوں کی جانب سے امن و امان برقرار رکھنے کے لیے سڑکوں پراحتجاج کیا گیا۔یہ احتجاج اس وقت کیا گیا تھا جب ٹی ٹی پی کی طرف سے ایک بم دھماکے میں امن کمیٹی ممبر ادریس خان سمیت 8 افراد شہید ہوگئے تھے۔ مقامی کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ میں درج رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی نے گزشتہ ہفے ایک ٹیلی کام کمپنی کے10 ملازمین کو اغوا کرکے رہائی کے لیے ایک کروڑ روپے تاوان کا مطالبہ کیا۔