عمران خان کے وکیل حامد خان کے اس بیان نے کہ تحریک انصاف کے سربراہ نے توہین عدالت کے کیس میں غیر مشروط معافی نہیں مانگی ،نیا پنڈورا باکس کھول دیا ہے اور قانونی ماہرین یہ سوال کر رہے ہیں کہ کیا اگلی پیشی پر عمران خان کو حلف نامہ داخل کرانے پر معافی ملے گی یا پھر فرد جرم عائد کی جائے گی ؟
حامد خان کے بیان نے جہاں تحریک انصاف کے حامیوں کو پریشان کردیا ہے وہیں ان کے موکل عمران خان کے لیے بھی مشکل کھڑی ہوگئی ہے کیونکہ عام تاثر یہی تھا کہ انہوں نے عدالت سے معافی طلب کرلی ہے اور عدالت میں اس معافی کو قبول بھی کرلیا ہے تاہم جسٹس (ر) رشید اے رضوی جیسے سینئر قانون دانوں کا بھی خیال ہے کہ اگلی پیشی پر عدالت عمران خان پر فرد جرم عائد کر سکتی ہے۔
ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے حامد خان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں عمران خان نے صرف یہ کہا کہ اگر عدالت کو لگتا ہےکہ کوئی ریڈ لائن کراس کی ہے تو اس کی معافی مانگنے کو تیار ہیں۔
ان کہنا تھا کہ غیر مشروط معافی کا مطلب توہین کا اقرار کرنا ہوتا ہے جبکہ عمران خان کا مؤقف یہ ہےکہ انہوں نے توہینِ عدالت نہیں کی ، جو پہلے مؤقف اپنایا تھا وہی مؤقف ہے اور حلف نامہ بھی اسی پیرائے میں ہوگا۔عمران خان نے پہلے بھی اپنے دونوں جوابات میں یہی کہا تھا کہ عدالت کو مطمئن کرنا چاہتے ہیں کہ ہم نے کوئی توہین عدالت نہیں کی ، اگر عدالت محسوس کرتی ہے تو اس کی معذرت کرلیتے ہیں۔
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کا تحریری حکمنامہ بھی جاری کردیا گیاجس میں کہا گیا ہےکہ عمران خان کی جانب سے معافی پر مطمئن ہیں، عمران خان بیان حلفی دیں تو اسے زیر غور لایا جائےگا، عمران خان نے بیان دیا ان کا جج ڈسٹرکٹ کورٹ کو دھمکانےکا کبھی کوئی ارادہ نہ تھا، عمران خان نے بیان دیاکہ کارروائی کے دوران محسوس ہوا کہ انہوں نے ریڈ لائن کراس کی ہو، ان کے بیان کے پیچھے قانونی کارروائی کا حوالہ تھا، عمران خان نے کہا ایسی نیت نہیں کہ عدالت کے وقار اور کام میں مداخلت کریں۔
عدالت عالیہ نے معافی کے بیان پر اطمینان کا اظہارکیا اور عمران خان کی روسٹرم پر کی گئی مکمل گفتگو حکمنامےکا حصہ بنا دی گئی۔