مولانا ابولااعلیٰ مودودی کی نثر نگاری میں انفرادیت ہے،فراست رضوی

کراچی: مولانا ابولااعلیٰ مودودی کی نثر نگاری میں ایک الگ انفرادیت ہے۔ یہ بات بزم مکالمہ پاکستان کے زیر اہتمام منعقدہ چھٹی ماہانہ نشست سے خطاب کرتے ہوئے معروف نقاد، محقق، شاعر اور مصنف فراست رضوی نے بعنوان ”مولانا مودودی ایک بحیثیت نثر نگار“خطاب کرتے ہوئے کہی۔ میزبان شیخ طارق جمیل نے تمام مہمانوں کا تعارف اور خوش آمدید کیا جبکہ معروف شاعر اور مصنف رونق حیات نے فراست رضوی کا تعارف پیش کیا۔ مہمان خصوصی فراست رضوی نے کہا کہ مولانا ابولااعلیٰ مودودی ہمہ جہت شخصیات کے مالک تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بڑے علم و ادب سے نوازا تھا۔ مولانا سرسید احمد خان اور میر امن سے بہت متاثر تھے انہو ں نے بڑا گہرہ مطالعہ کیا تھا انہیں عربی، فارسی اور انگریزی زبان پر بھی مہارت حاصل تھے۔ انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم بھی حاصل کی اور پڑھایا بھی انکی شخصیت میں بڑا رکھ رکھاؤ، بڑی متانت اور شائستگی اور بڑی علمیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ انکی پہلی کتاب الجہاد فی الاسلام تھی۔ جو اس دور میں ایک بڑا چیلنج تھا۔ انہوں نے تصور جہاد کو اخلاقیات سے ثابت کیا۔ ابولاعلیٰ مودودی ایک بڑے مجدد تھے انہوں نے ختم نبوت کی حفاظت کیلئے ایک کتاب قادیانی ایک مسئلہ لکھی۔ الجہاد فی الاسلام انکے اسلوب کا آغاز تھی۔ مولانا مودودی کو محاوروں پر بھی عبور حاصل تھا۔ مولانا مودودی کی نثر کی ایک خوبی یہ ہے کہ ایک سادہ، سلیس اور عام فہم نثر لکھا کرتے تھے بنیادی طور پر مولانا مودودی ایک کہنہ مشق صحافی تھے اور اپنی صحافت اور باقاعدہ لکھنے کا عمل ترجمان القرآن سے کیا۔ مولانا کی تحریروں میں میں معقولیت، منطقی استدلال کے ساتھ لکھتے تھے۔ انہوں نے اپنے علم و عمل سے ثابت کیا کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ اخلاق ہے۔ مولانا مودودی متعدد بار جیل گئے مگر وہاں پر مسلسل مطالعہ میں مشغول رہے اور تفسیر القرآن کی پہلی جلد بھی جیل میں لکھی۔ لیکچر کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا فراسٹ رضوی نے تمام سوالوں کے جوابات بھی دیئے اور وضاحت بھی کی۔ آخر میں شیخ طارق جمیل نے بزم مکالمہ کا نشان سپاس فراست رضوی کو پیش کیا اور تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔