صوبائی وزیر اطلاعات ، ٹرانسپورٹ و ماس ٹرانزٹ شرجیل انعام میمن نے کہا ہے کہ سیلابی صورتحال میں امدادی سرگرمیاں جاری ہیں ، پانی کم ہو رہا ہے ، لوگ اپنے گھروں کو واپس جا رہے ہیں۔ حیدرآباد میں 30 فیصد افراد ریلیف کیمپس سے واپس اپنے گھروں کو جا چکے ہیں ، ضلعی انتظامیہ انہیں ٹرانسپورٹ کی سہولت اور راشن فراہم کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر علاقے کے اپنے ڈائنامکس ہیں ، کچھ علاقوں سے 15 دن ، بعض علاقوں سے 30 دن ، جبکہ کچھ علاقوں سے پانی کی نکاسی میں تین مہینے لگ سکتے ہیں۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے سندھ آرکائیوز میں پیر کے روز پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت پانی کی نکاسی پر توجہ دے رہی ہے ،اس ضمن میں وزیر اعلیٰ سندھ روزانہ کی بنیاد پر محکمہ آبپاشی سے اجلاس کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پانی کی نکاسی پر پی ڈی ایم اے کی ہیوی مشینری کے علاوہ کراچی واٹر بورڈ اور کے ایم سی کی مشینری بھی موبلائیز کی گئی ہے ، تاکہ جلد از جلد متاثرہ علاقوں سے برساتی پانی کی نکاسی یقینی بنائی جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ مخیر حضرات اور این جی اوز کو بھی کہا ہے کہ پانی کی نکاسی میں مدد کریں اور پمپنگ موٹرز فراہم کریں۔ انہوں نے کہا کہ پانی کی نکاسی کے بعد ریہیبلیٹیشن کے کام کا آغاز کیا جائے گا۔ ریہیبلیٹیشن دو قسم کی ہوگی۔ جس میں جن کے گھر گر گئے ہیں ان کو گھر تعمیر کر کے دینگے ، جبکہ کاشتکاروں کی فصلیں تباہ ہو چکی ہیں اور وہ قرضوں میں جکڑھ چکے ہیں۔ ان کی بحالی کے لیے حکومت نے مختلف بینکوں سے رابطہ کیا ہے تاکہ ان کے قرضے ریشیڈیول ہوسکیں ، جس پر کافی بنکوں نے مثبت جواب دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک اندازے کے مطابق ایک گھر کی تعمیر میں 5 لاکھ روپے لاگت آسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حالیہ بارشوں سے سب سے زیادہ تباہی سندھ میں ہوئی ہے۔ دنیا کو اور پوری پاکستانی قوم کو سندھ میں بحالی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ بیرون ملک سے بہت سی کمپنیوں اور مخیر حضرات نے رابطہ کیا ہے وہ ماڈل گھر بنانے میں مدد دینے کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کل( منگل) سے ٹارگٹڈ علاقوں میں آٹے کے اسٹال لگائے جائیں گے تاکہ سندھ حکومت کی جانب سے آٹے پر دی جانے والی سبسڈی غریب اور مستحق افراد کو منتقل کی جاسکے۔ اس سلسلے میں محکمہ خوراک کی جانب سے سروے کروائے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 25 فیصد گندم حکومت خرید کرتی ہے اور 75 فی صد مل مالکان خرید کرتے ہیں۔ حکومت کی کوشش ہے کہ سرکاری گندم غریب علاقوں میں دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ضلعی انتظامیہ اس کی نگرانی کرے گی تاکہ جو لوگ زخیرہ اندوزی کرتے ہیں ان سے بھی سختی سے نمٹا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ سیلاب کی تباہ کاریوں میں جانبحق افراد کے لواحقین کو فی کس 10 لاکھ روپے معاوضہ دیا جائے گا ، جب کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت بھی متاثرین کی امداد کی جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سیلاب متاثرین کو طبی امداد فراہم کرنے پر بھی خصوصی توجہ دی جا رہی ہے ،
محکمہ صحت ، پی پی ایچ آئی ، پاکستان آرمی ، نیوی ، ایئر فورس اور فلاحی تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سیلاب متاثرین کو طبی امداد فراہم کرنے کے لیے 6963 فکسڈ میڈیکل کیمپس اور 7920 موبائل کئمپس قائم کئے گئے ہیں۔ جن میں 19536 مختلف بیماریوں کے ماہر ڈاکٹرز، 39600 پیرامڈکس اور 1792 رضاکار خدمات انجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 3.14 ملین مریضوں کو ان میڈیکل کیمپس میں علاج معالجہ کی سہولت فراہم کی گئی ہے، جس میں 638970 ڈائیریا، 703340 چمڑی کی بیماریوں, 621319 سانس کی بیماری ، 294519 مشتبہ ملیریا ، 15179 کنفرمڈ ملیریا اور ڈینگی کے 1284 مریضوں سمیت دیگر مریضوں کو علاج کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت کے پاس اس وقت 92347 کتے کے کاٹنے سے بچاو ¿ کی ویکسین اور 18399 سانپ کے ڈسنے سے بچاو ¿ کی ویکسین اسٹاک میں موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ رواں سال 2022 میں ڈینگی کے مجموعی طور پر 7951 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ جبکہ ستمبر کے مہینے میں 5382 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، جس میں سب سے زیادہ 4661 کراچی ڈویڑن میں رپورٹ ہوئے ہیں۔ اسی طرح حیدرآباد میں 479 ، میرپور خاص میں 132 ، لاڑکانہ 17 ، سکھر 32 اور شہید بےنظیر آباد ڈویڑن میں ستمبر کے مہینے میں ڈینگی کے 61 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔