مستقل ملازمت کیلئے پہلی پوزیشن حاصل کی. عارف الحق عارف

سجاد عباسی
نواں حصہ
کراچی پورٹ ٹرسٹ میں جب عارضی ملازمت کا مستقل انتظام ہو گیا اور ہم کچھ کچھ کمانے کے لائق ہوگئے تو ہمارے دوست کے ماموں نے ہماری رہائش کا بندوبست ہزارہ کے ایک باسی ٹریفک کانسٹیبل کے ساتھ کردیا۔ جن کا نام اب یاد نہیں ہے۔ وہ قریب ہی ایک الگ کمرے میں رہتے تھے۔ ان کا کوارٹر ہمارے دوست کے کوارٹر سے کوئی پچاس ساٹھ قدم کے فاصلے پر تھا۔ یہ ہمارے لئے ایک نیا تجربہ تھا۔ زندگی میں پہلی بار خاندان سے باہر رہنے پر مجبور ہونا پڑ رہا تھا۔ ہم غربت ہی میں پلے بڑھے تھے۔ لیکن ایک خاندان اور کنبے میں رہ رہے تھے۔ اکیلے اور وہ بھی کسی غیر شخص کے ساتھ رہنے کا خوف سا تھا۔ پہلے تو اپنا ہی خاندان اور گھر تھا۔ اور کراچی آکر بھی بشیر بھائی کے خاندان ہی میں رہ رہے تھے۔ اس لئے ایک اجنبی کے ساتھ رہنے کے تصور ہی سے طرح طرح کے خیالات اور وسوسے ذہن میں آرہے تھے کہ پتہ نہیں، اب کیسا لگے گا۔ اس طرح کسی کے ساتھ الگ سے رہنے میں۔ لیکن ہمیں احساس تھا کہ ہم اب پردیس میں ہیں اور پردیس میں رہنے کی اپنی مجبوریاں اور اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ جن کا اطلاق ہم پر بھی ہوتا تھا۔ پھر ہمیں اپنے محسن کے گھر رہتے ہوئے پورے تین ماہ ہو چکے تھے۔ ان کے ماتھے پر بل تک نہ آیا تھا۔ جو ان کے وسیع القلب ہونے کی نشانی تھی۔ تاہم یہ ان کا ہم پر بہت بڑا احسان تھا۔ جس کا اجر انہیں اللہ تعالیٰ ضرور دیں گے۔ ہمارا وہاں مزید رہنا مناسب بھی نہیں تھا۔ اس لئے ہم نے الگ ہونے کے فیصلے قبول کر لیا تھا۔
نئے کوارٹر میں منتقل ہوئے ابھی دوسرا دن تھا۔ ہم نے روم میٹ سے ملاقات کی اور اپنے بارے میں جتنا ضروری تھا بتا دیا۔ انہوں نے بھی اپنا پورا تعارف کرایا اور ایک ساتھ رہنے کے کچھ ضوابط بھی طے کئے۔ ہمارے روم میٹ کا کہنا تھا کہ ہوٹل کا کھانا مضر صحت بھی ہوتا ہے اور کچھ مہنگا بھی۔ اس لیے ہم اپنا کھانا خود پکائیں گے۔ ہم نے ان پر واضح کر دیا کہ ہمیں کھانا پکانے کا کوئی تجربہ نہیں۔ کھانا تو کیا ہم نے کبھی چائے تک نہیں بنائی۔ اس لئے ہمیں کھانا پکانے سے دور ہی رکھا جائے۔ ہم روٹی پکوانے کا کام آسانی سے کر لیں گے۔ لیکن انہوں نے بڑے بڑے دلائل کے ساتھ ہمیں مطمئن کر دیا کہ ’’جب میں کراچی آیا تھا تو میرا بھی یہی حال تھا۔ آہستہ آہستہ کوشش کی اور بہت اچھا کھانا پکانا سیکھ گیا۔ آپ بھی سیکھ جائیں گے۔ اب تو میں اچھا خاصا باورچی بن چکا ہوں‘‘۔ اس کے بعد بحث کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ چنانچہ طے ہوا کہ جس کو بھی وقت ملے گا۔ وہ سالن بنا لیا کرے گا اور دوسرا روٹی کا بندوبست کرے گا۔ روٹی کے انتظام کا مطلب یہ تھا کہ آٹا گوندھ کر تندور سے فی روٹی اجرت دے کر روٹی پکوا لی جائے۔ اس وقت یہی طریقہ تھا روٹی پکوانے کا۔ اتفاق سے دوسرے ہی دن سالن پکانے کی ذمہ داری ہم پر آن پڑی۔ ہماری رات کی ڈیوٹی تھی۔ اس لئے ہم گھر پر تھے اور ہمارے پاس وقت بھی تھا۔ ہم نے ایک ٹھیلے سے سبزی خریدی اور اسے کاٹ کر پکانے کے لئے تیار کر لیا۔ پھر اسٹوو جلایا اور پتیلی میں تیل گرم کر کے اس میں کٹی ہوئی پیاز ڈال دی۔ ذہن بالکل خالی تھا۔ تجربہ نہیں تھاکہ آگے کیا کرنا ہے؟ چنانچہ ہم دوڑے دوڑے بشیر بھائی کی اہلیہ کے پاس یہ پوچھنے چلے گئے کہ اب کیا کریں؟ ہم نے انہیں بتایا کہ اب تک ہم کیا کر کے آئے ہیں۔ انہوں نے سبزی پکانے کی ترکیب بتاتے ہوئے اچانک سوال کیا کہ آپ نے آتے وقت اسٹوو بندکر دیا تھا یا وہ جل رہا ہے؟ ہم تو اسٹوو کو جلتا ہوا چھوڑ آئے ہیں۔ ہمارا یہ جواب سن کر انہوں نے ہمیں فوری طور پر واپس جانے کا کہا کہ یہ تو بڑی خطرے کی بات ہے۔ اس سے پوار کمرہ آگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔ بلکہ گھر کا سارا سامان جل کر بھسم ہو سکتا ہے۔ یہ سنتے ہی ہم اپنے کمرے کی طرف دوڑے کہ کہیں کمرے میں آگ نہ لگ گئی ہو۔ جب ہم بھاگم بھاگ کمرے میں پہنچے تو یہ دیکھ کر اطمینان ہوا کہ اللہ نے کرم کیا تھا۔ کمرے میں آگ تو نہیں بھڑکی تھی۔ لیکن پتیلی میں پیاز جل کر کوئلہ بن چکی تھی۔ پورے کمرے میں پیاز کے جلنے کی بو پھیل چکی تھی۔ اگر ایک منٹ بھی دیر ہو جاتی تو تیل آگ پکڑ لیتا اور پورے گھر کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی تھی۔ اللہ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا کہ آگ اسٹوو تک ہی محدود رہی۔ ورنہ وہ ہنڈیا بہت مہنگی پڑ جاتی۔ بہرحال اس تلخ تجربے کا فائدہ یہ ہوا کہ ہمیں کھانا پکانا آگیا۔ اسی دن شام کے وقت جب ہم دوست کے گھر گئے تو ہمارے کھانا پکانے ہی کا ذکر ہو رہا تھا اور سب ہنس رہے تھے۔ کافی دنوں تک اس کا چرچا رہا۔


ڈیلی ویجز کی عارضی ملازمت کرتے کوئی سال ڈیڑھ سال ہی ہوا تھا کہ اعلان ہوا، کے پی ٹی کی انتظامیہ ڈیلی ویجز کلرکس کا ایک تحریری امتحان لے گی۔ جس میں پاس ہونے والوں کو مستقل کر دیا جائے گا اور وہ جنرل آؤٹ ڈور کلرک ہو جائیں گے۔ امتحان کی ایک تاریخ بھی دی گئی۔ 1962ء میں یہ امتحان ہوا۔ جس میں ہم نے پہلی پوزیشن حاصل کی اور اس طرح کے پی ٹی میں مستقل سرکاری ملازمت کا بندوبست ہوگیا۔ اس کا باقاعدہ تقرر نامہ بھی جاری ہوا۔ جس کے مطابق ہم جی او سی ہو گئے تھے۔ جی او سی کے مخفف سے ہم دل ہی دل میں بڑے خوش ہوئے کہ فوج میں جائے بغیر ہی ہمیں یہ فوجی عہدہ جنرل آفیسر کمانڈنگ مل گیا ہے۔ لیکن ہماری یہ خوش فہمی جلد ہی ختم ہو گئی۔ جب اس کی تشریح کرکے بتایا گیا کہ کے پی ٹی میں اس کا مطلب جنرل آؤٹ ڈور کلرک ہے اور ان کی تعداد یہاں سینکڑوں میں ہے۔ جنرل آؤٹ ڈور کلرک کو کے پی ٹی کے ڈھانچے میں وہی بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ جو محکمہ مال میں پٹواری اور کسٹمز میں آپریزر کو حاصل ہوتی ہے۔ اس کی رپورٹ کو کسی جگہ بھی چیلنج نہیں کیا جاسکتا تھا۔ یہ بات اس وقت تو سمجھ میں نہیں آئی۔ لیکن جب ایک سال کے اندر ہمارا تبادلہ کے پی ٹی کے سنٹرل شیڈ میں ہوگیا اور ہم آؤٹ ٹرن رپورٹیں بنانے لگے تو اچھی طرح سمجھ میں آگیا کہ واقعی اس بات میں بڑی صداقت تھی۔ نوٹیفیکیشن کے مطابق ہماری تنخواہ 143 روپے مقرر ہوئی۔ جو اس دور کے لحاظ سے بہت معقول تھی۔ کے پی ٹی اس وقت ملک کی دو اہم بندرگاہوں میں سے ایک تھی۔ دوسری بندرگاہ مشرقی پاکستان کے شہر چاٹگام میں تھی۔ کراچی کی بندرگاہ کو گیٹ وے آف پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔
ایوب خان کا مارشل لاء لگے تین سال ہو چکے تھے اور ملک بھر میں دوسرے ترقیاتی کاموں کی طرح بندر گاہ کو بھی دنیا کی جدید ترین بندرگاہوں کی طرح تعمیر کیا جارہا تھا۔ ایسٹ وہارف میں نئے شیڈز تعمیر ہو رہے تھے اور ہر برتھ پر شیڈ کے ساتھ ساتھ عملے کیلئے دفاتر اور ان سے ملحق واش رومز اور باتھ رومز بھی بنائے جارہے تھے۔ ان جدید تعمیرات سے بندرگاہ کی ساخت اور خوبصورتی میں بڑا اضافہ ہو گیا تھا۔ تعمیرات کے مراحل بڑی تیزی سے طے ہو رہے تھے۔ اس لیے دونوں وہارف پر بڑی گہماگہمی رہتی تھی۔ پاکستان کی درآمدات اور برآمدات کا سارا دارومدار ان دو بندرگاہوں پر تھا۔ اس لئے اس وقت کی حکومت کی بھرپور توجہ ان بندر گاہوں کی تعمیر و ترقی پر تھی۔
جہاں تک ہمیں یاد پڑتا ہے اس وقت کے پی ٹی کی انتظامیہ کا ڈھانچا کچھ یوں تھا کہ ایک چئیر مین، ایک سیکریٹری، ایک ٹریفک منیجر، تین اسسٹنٹ ٹریفک منیجر اور غالباً ہر وہارف پر دودو ٹریفک آفیسرز اور ان کے ماتحت ہر شیڈ پر ایک ایک ٹریفک انسپکٹر، ان کے ما تحت سپروائزر، پھر چیکرز اور اس کے بعد جنرل آؤٹ ڈور کلرک تھے۔ لیکن اب یہ ڈھانچہ ملکی نظام کی طرح کافی بدل چکا ہے۔ سیاسی بنیادوں پر میرٹ کے بغیر افسروں اور عملے کی تعداد میں بے حد و حساب اضافہ ہو چکا ہے۔ اس زمانے میں کے پی ٹی کے ٹریفک منیجر کے رعب کا یہ عالم تھا کہ وہ جب کبھی دفتر آنے سے پہلے پیدل پورے وہارف کا اپنے ماتحتوں کے ساتھ دورہ کرتے تو ایک سرے سے دوسرے سرے تک تمام ملازمین الرٹ ہو جاتے اور کیا مجال کہ کوئی غیر حاضر ہو۔ اگر کام میں بے پروائی کرتے ہوئے پکڑا جاتا یا کسی کی شکایت ہوتی تو اسی وقت ایکشن لیا جاتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ سارے کام اپنے اپنے طریقے کے مطابق انجام پاتے۔


مستقل نوکری ملنے کے بعد ہمیں پہلی تنخواہ 143 روپے ملی۔ جو ضروریات کے لحاظ سے مناسب تھی۔ ہم نے اس کا بجٹ اس طرح بنایا کہ اس کا اچھا خاصا حصہ والد صاحب کو بھیجنے لگے۔ بقیہ رقم میں اپنا گزارا بھی بہتر ہونے لگا۔ ہم دوست ایک دوسرے کو بچت کرنے کی باقاعدہ ترغیب دیا کرتے تھے۔ اس زمانے میں کیماڑی کے اچھے ہوٹلوں میں چار آنے میں ایک وقت کا اچھا کھانا مل جاتا تھا۔ جس میں چائے بھی شامل ہوتی تھی۔ ایک بار ہم نے تنخواہ والے دن چار آنے کے بجائے چھ آنے کا کھانا کھایا۔ یہ فرق بیف کے سالن کے بجائے بکرے کے سالن کا تھا، جو ہمیں زیادہ پسند تھا۔ اتفاق سے سامنے والی ٹیبل پر بیٹھے ہمارے ایک دوست نے بل کی ادائیگی کے بعد ہمیں روک لیا اور سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ بھائی ایسی ’’عیاشی‘‘ کرتے رہو گے تو بچت کیسے کرو گے اور گھر والوں کا خیال کیسے کرو گے؟۔
کراچی آنے کے دو مقاصد میں سے ایک یعنی روزگار کا مسئلہ حل ہو گیا تھا۔ لیکن یہ فکر ابھی دامن گیر تھی کہ مزید تعلیم کا سلسلہ کیسے جاری رکھا جائے؟۔ کئی دن کے سوچ بچار اور بڑے غور و فکر کے بعد ’’وایا بھٹنڈا‘‘ یعنی (شارٹ کٹ) والا نسخہ سمجھ میں آیا کہ صرف منشی فاضل، اردو فاضل یا عربی فاضل میں سے علوم شرقیہ کا کوئی ایک امتحان پاس کرلیا جائے۔ جس کے بعد انٹر اور بی اے کا انگلش کا پرچہ دے کر انٹر اور بی اے کی ڈگری لے لی جائے۔ بہت سے قارئین کی سمجھ میں شاید یہ لفظ ’’بٹھنڈا‘ نہ آئے۔ بٹھنڈا دراصل بھارتی پنجاب کا ایک قصبہ ہے۔ جو دو بڑے شہروں کو ایک دوسرے سے ملانے کا سب سے مختصر راستہ ہے اور اسی قصبے سے ہو کر گزرتا ہے۔ اس لیے اس کا شارٹ کٹ نام ’’وایا بٹھنڈا‘‘ پڑ گیا۔ ہم نے اس فیصلے کے مطابق اردو فاضل کی تیاری شروع کر دی اور دن رات کی محنت کے بعد 1962ء میں لاہور بورڈ سے فاضل اردو کا امتحان پاس بھی کر لیا۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ یہ امتحان صدر کی سمر سیٹ اسٹریٹ کے ایک اسکول میں ہوا تھا۔ اور اسی امتحان کے دوران ہی ہماری ملاقات پہلی بار سید محمود احمد مدنی سے ہوئی تھی۔ جو بعد میں ہمارے بہترین دوست اور جنگ کے ایڈیٹر بھی بنے تھے۔ اس وقت کراچی میں علوم شرقیہ کا کوئی بورڈ موجود نہیں تھا۔ اس لئے لاہور بورڈ نے کراچی میں اپنا ایک سنٹر بنایا تھا۔ اگرچہ ہم نے یہ امتحان پاس کر لیا تھا۔ لیکن دل اس طرح آسان طریقے سے انٹر اور بی اے کرنے سے مطمئن نہیں تھا۔ ہم چاہتے تھے کہ کالج میں انٹر میڈیٹ آرٹس میں باقاعدہ داخلہ لیکر پڑھا جائے۔ چنانچہ ملازمت ملتے ہی ہم نے کالج میں داخلے کا پروگرام بنایا اور اردو کالج میں باقاعدہ داخلہ لے لیا۔ داخلہ لیتے وقت کالج کے دفتری عملے کے ساتھ ایک دلچسپ مکالمہ بھی ہوا۔ جب ہم نے داخلے کیلئے اپنی میٹرک کی مارک شیٹ پیش کی تو کائونٹر پر موجود کلرک نے اسے دیکھتے ہوئے کہا کہ ’’آپ کے تو سائنس میں بہت ہی اچھے نمبر ہیں۔ آپ تو پری میڈیکل یا پری انجینئرنگ میں بھی داخلہ لے سکتے ہیں‘‘۔ ہم نے جواب دیا کہ ہمیں تو اس کا علم ہی نہیں تھا اور نہ ہی کسی نے بتایا کہ ڈاکٹر یا انجینئر بننے کیلئے کون کون سے مراحل طے کرنا پڑتے ہیں۔ اب اگر علم ہو بھی جائے تو بھی ایسا نہیں کر سکتا۔ کیونکہ ملازمت کے ساتھ صرف آرٹس ہی میں پڑھا جا سکتا ہے۔ پری انجینئرنگ یا پری میڈیکل میں داخلے کا مطلب یہ ہوگا کہ ملازمت چھوڑ دی جائے۔ کیونکہ پروفیشنل تعلیم اور ملازمت ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ چنانچہ ہم نے آرٹس کے مضمون ہی میں داخلہ لینا مناسب خیال کیا۔


کے پی ٹی میں ہماری ڈیوٹی اس زمانے میں گیٹ چیکر، ٹیلی کلرک سے ہوتے ہوئے سنٹرل شیڈ میں آئوٹ ٹرن کلرک کی حیثیت سے ہو گئی تھی۔ جہاں ایک سپروائزر جعفر صاحب تھے۔ جو علم دوست اور ماتحت عملے کے ساتھ ہمدردی رکھتے تھے۔ ان سے ہماری دوستی ہوگئی۔ ہم نے ایک دن مناسب موقع دیکھ کر ان سے اپنا مسئلہ بیان کیا کہ ہم نے کالج میں داخلہ لے لیا ہے۔ اب کالج کی کلاسیں لینے کیلئے کالج جایا کریں گے اور دفتر کا کام واپس آکر مکمل کریں گے۔ ہمیں اس کی اجازت دی جائے۔ ہمارے ساتھ بشیر بھائی بھی تھے۔ انہوں نے مہربانی کی اور ہماری درخواست منظور کر لی۔ اس ڈیل کے نتیجے میں ہم نے باقاعدہ کالج جانا شروع کردیا اور اس طرح کالج میں داخل ہو کر مزید پڑھائی کا ہمارا دوسرا مقصد بھی پورا ہو گیا۔ اب ہمارا روزانہ کا معمول تھا کہ دفتر آتے اور کچھ دیر بعد کالج چلے جاتے۔ کالج سے واپس دفتر آتے اور دفتری اوقات ختم ہو جانے کے بعد بھی زیادہ دیر رک کر اپنا کام مکمل کر لیتے۔
ہم نے اس وقت تک اپنی رہائش بھی بدل لی تھی اور کیماڑی ہی میں ریلوے کے ایک کمرے کے کوارٹر میں دوسرے تین دوستوں کے ساتھ رہتے تھے۔ یہ تینوں اسکولوں کے اساتذہ تھے۔ ان میں ایک کیماڑی کے لوئر مڈل اسکول کے ہیڈ ماسٹر امان اللہ خان تھے۔ دوسرے دونوں گورنمنٹ ہائی اسکول کے اساتذہ محمد اسلام اور ہزارہ کے عبداللطیف تھے۔ اس کوارٹر میں بجلی نہیں تھی۔ رات کو لالٹین کی روشنی میں سارے کام انجام پاتے۔ مگر اس کی مدھم روشنی میں پڑھنا ممکن نہ تھا۔ ہم نے اس کا حل یہ نکالا کہ اپنی کتابیں اٹھاتے اور کیماڑی کی اس جیٹی پر پہنچ جاتے۔ جہاں سے کشتیاں منوڑا کے لیے روانہ ہوتی تھیں۔ وہ جیٹی نئی نئی بنی تھی۔ لائٹوں کا اچھا انتظام تھا۔ ان لائٹوں کی روشنی میں رات گیارہ بجے تک پڑھائی کرتے اور پھر واپس گھر آجاتے۔ اگر رات کی ڈیوٹی ہوتی تو بندر گاہ پر کارگو کرینوں کے نیچے بیٹھ کر ان کی روشنی میں بھی پڑھتے اورامتحان کی تیاری کرتے۔ ملازمت کے ساتھ کالج کی تعلیم ایک مشکل کام تھا۔ لیکن عزم اور ارادہ پختہ ہو تو کوئی کام مشکل نہیں رہتا۔ اس طرح ہم اور بشیر بھائی نے 1964ء میں انٹر اور 1965ء میں بی اے پارٹ ون اردو کالج سے پاس کر لیا اور بی اے فائنل کیلئے ایس ایم کالج میں داخلہ لے لیا اور وہیں سے 1966ء گریجویشن بھی کر لیا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭٭