اناڑی پن سے آم کاٹنے پر رشتے سے منع کر دیا گیا

پندرھواں حصہ

‎مولانا عبدالعزیز، امیر جماعت اسلامی کوئٹہ تھے، وہ وہاں کی سردیوں ‎ کے برفانی موسم میں کراچی آتے اور اکیڈمی کے قریب رہائش پذیر ہو جاتے تھے۔

اُنہوں نے قرآن وحدیث کا علم حاصل کرنے میں پوری زندگی صرف کر دی تھی اور اُن علوم کی باریکیوں پربھی اُن کی گہری نظر تھی۔ اِس کا اندازہ اکیڈمی میں ریسرچ فیلو کو دیئے جانے والے لیکچرز سے ہوتا تھا جن کو سننے کا موقع کئی بار ہمیں بھی ملا۔ وہ بہت بڑے خطیب تھے۔

ہم نے اُن کی تقریروں کے دوران جدید تعلیم یافتہ افراد کی آنکھوں سے بھی آنسوؤں کو بہتے ہوئے دیکھا۔ ہمیں اُن کی نجی مجلسوں میں بیٹھنے اور علمی گفتگو سے خوشہ چینی کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ سیّد معروف شاہ شیرازی کا تعلق مانسہرہ سے تھا۔ وہ عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ صحافی بھی تھے اور ”اسوہ“ کے نام سے ایک دینی ماہ نامہ نکالتے تھے۔

اُن کا جماعت اسلامی کے ساتھ نوعمری ہی سے تعلق قائم ہوگیا تھا۔ ان کا گھر ہمارے پڑوس ہی میں تھا، اس طرح ہمارا دوستانہ رابطہ تھا۔ اُن کا سب سے بڑا کارنامہ” اخوان المسلمون“ کے رہنما سیّد قطب شہید کی ضخیم اور مشہور تفسیر ”فی ظلال القرآن“ کا اردو ترجمہ ہے جو چھ جلدوں پر مشتمل ہے۔

بڑا علمی کام خود کو الگ تھلگ کر کے، کراچی کے ایک بنگلے میں بند ہوکر مکمل کیا

 

یہ بڑا علمی کام انہوں نے روزمرہ کے تمام کاموں سے خود کو الگ تھلگ کر کے، کراچی کے ایک بنگلے میں بند ہوکر، مکمل کیا تھا جس سے ان کے کسی بڑے کام کو مستقل مزاجی سے مکمل کرنے کے عزم کا اظہار ہوتا تھا۔ وہ اسلام آباد میں ایک جدید مدرسے کے مہتمم رہے۔جو انہوں نے ایک ہزار مربع گز کا ایک پلاٹ خرید کر قائم کیا۔ افسوس ان کا بھی ایک ڈیڑھ سال قبل انتقال ہو گیا۔ ان کی پوری زندگی دینی تعلیم کے فروغ اور تحریک اسلامی کی دعوت کو عام کرنے کی کوششوں اور جدوجہد میں گزری۔

‎اکیڈمی میں ریسرچ فیلوز کو تربیت دینے کا طریقہ یہ تھا کہ پروفیسر خورشید اور مصباح الاسلام فاروقی کوئی کتاب منتخب کرتے اور ریسرچ فیلو کو پوری کتاب، اس کا ایک باب یا کوئی متعین حصہ مطالعے کے لئے دیتے پھر سب ایک کلاس یا اجلاس میں اس پر سوالات اور بحث مباحثہ کرتے جس سے اس کتاب کے موضوع پر سیر حاصل بحث ہوجاتی اور ہر ایک کے علم میں نئے نئے پہلو بھی آ جاتے۔ اکیڈمی کی لائبریری میں قرآن و حدیث اور فقہ پر جدید وقدیم علوم پر ہزاروں کتب تھیں اور ان میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا رہتا۔ دنیا بھر میں شائع ہونے والی دلچسپی کے موضوعات کی کتب بھی آتی رہتیں۔ اس کے لئے بجٹ میں باقاعدہ رقم مختص کی جاتی تھی۔ اس طرح یہاں کے ریسرچ فیلوز کو تازہ ترین کتب سے استفادے کا موقع بھی ملتا۔

 

یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا۔ ہر ریسرچ فیلو اس کتاب کے متعلقہ باب یا متعین صفحات کا باریک بینی سے مطالعہ کرتا، اُن کے نوٹس تیار کرتا پھر کلاس میں شریک ہوتا۔ مطالعے کے اِس طریقے کا فائدہ تو ہر ایک کو ہوتا ہی تھا لیکن اس کا جو فائدہ ہمارے بھائی ممتا ز احمد کو پہنچا وہ ریکارڈ کا حصہ بھی بن گیا۔ ممتاز بھائی نے اسی عرصے میں پرائیویٹ طالب علم کی حیثیت سے کراچی یونیورسٹی سے بی اے کا امتحان دیا جس میں انہوں نے پہلی پوزیشن لی تھی۔ ان کا ایک پرچہ پولیٹیکل سائنس کا بھی تھا، جس کے سوالوں کے جواب میں امریکا اور یورپ کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں کی تازہ ترین چھَپنے والی ایسی کتب کے حوالے بھی دیئے تھے جن کا ابھی یونیورسٹی کے اساتذہ تک نے مطالعہ نہیں کیا تھا۔اس کا ذکر خود ہم سے یونیورسٹی کے اس وقت کے وائس چانسلر اور پولیٹیکل سائنس ڈیپارٹمنٹ کے سابق سربراہ ڈاکٹر منظورالدین احمد نے ایک ملاقات میں اُس وقت کیا تھا جب ہم نے ان سے ڈاکٹر ممتاز احمد کے دوست اور ایک زمانے میں روم میٹ ہونے کا ذکر کیا تھا۔ انہوں نے بتایا تھا کہ ممتاز صاحب کا یہ حل شدہ پرچہ کراچی یونیورسٹی میں یادگار کے طور پر محفوظ کر لیا گیا ہے۔

‎ہمارے لئے اکیڈمی میں دلچسپی کی ایک اور بات بھی تھی کہ یہاں ملک بھر کے اردو، انگریزی اخبارات آتے تھے۔ ہم ان کا مطالعہ کرتے اور حالات ِحاضر ہ سے واقف رہتے، جو ایک اخبارنویس کے لئے نہایت ضروری ہے۔ اس سے بھی ہمیں بڑا فائدہ ہوا۔ اخبار پڑھنے کے شوقین محلے کے لوگ بھی اخبارات کا مطالعہ کرنے آتے رہتے تھے۔ اکیڈمی میں اخبارات کے تراشوں کا ریکارڈ رکھنے کا بھی انتظام تھا اور اس کا الگ سے باقاعدہ ایک شعبہ قائم تھا۔

اخبارات کی اہم خبروں پر ان کی درجہ بندی کی نوعیت کے حساب سے نشان لگا دیئے جاتے اور سعید قاضی اور محبوب بلوچ اُن کے تراشے متعین درجہ بندی کے لحاظ سے فائل کر دیتے۔ درجہ بندی کا مطلب یہ تھا کہ ملک، سیاسی جماعتوں، حکومت، امریکا، مشرق وسطیٰ، بھارت، کشمیر، فلسطین، چیچنیا، جماعت اسلامی اور اِسی طرح کے درجنوں عنوانات کی فائلیں بنی ہوئی تھیں اور وہ تراشے ان فائلوں میں جمع ہوتے رہتے تھے۔ خبروں پر نشان لگانے کی ذمے داری کسی ایک فرد کی نہیں تھی بلکہ زیادہ تر پروفیسر خورشید، مصباح الاسلام فاروقی اور ممتاز احمد کرتے تھے۔ کسی بھی موضوع پر کچھ لکھنا ہوتا تو اخبارات کے حوالوں کے یہ تراشے بہت کام آتے۔

‎ہمیں ناظم آباد میں رہتے ہوئے تین سال ہوگئے تھے۔ اِس دوران میں والد صاحب بھی ہر سال چھ ماہ کے بعد کراچی آجاتے تھے اور دو چار ماہ ہمارے ساتھ رہ کر واپس چلے جاتے تھے۔ غم روزگار کی وجہ سے ہمیں شادی کی سنّت پر عمل کرنے کی طرف توجہ دینے کی کبھی فرصت ہی نہیں ملی تھی۔ والد صاحب، جب بھی کراچی آتے، ہماری شادی پر زور دیتے۔ وہ آزاد کشمیر میں اپنے رشتے داروں میں مختلف برشتے بھی بتاتے لیکن اُن میں اوّل تو کو ئی پڑھی لکھی لڑکی نہیں تھی۔

 

 کراچی میں رشتہ کیسے تلاش کیا جائے؟

دوسرے اگر دیہات کی کسی لڑکی سے شادی ہو جاتی تو یقیناً وہ شہری ماحول میں ایڈجسٹ نہ ہو پاتی۔ اس لئے رشتے داروں اور اپنے گاؤں میں کسی سے شادی نہ کرنے کا معاملہ ہمیشہ کے لئے طے ہوگیا۔ مگر اب سوال یہ تھا کہ کراچی میں رشتہ کیسے تلاش کیا جائے؟ یہاں ہمارا کوئی رشتے دار گھرانا تو تھا نہیں۔ ہم اپنے دوست کی مہربانی اور تعاون سے تنہا ہی کراچی آئے تھے۔ ہماری جان پہچان بس اُنہی کے گھرانے سے تھی اور اُن کے بھی شہر میں اپنے خاندان کے سوا کسی اور سے کوئی تعلقات نہیں تھے۔ ہماری ماں کا انتقال 1959 میں ہوگیا تھا۔ اُس وقت ہماری عمر سترہ اٹھارہ سال تھی۔

‎ اسلامی جمعیت طلبا میں شمولیت کے بعد ہمیں تین گھرانوں سے نہ صرف اپنے گھر جیسی محبت ملی بلکہ اُن تین گھرانوں ہی میں ہمیں ماں کا پیار بھی ملا تھا۔ ان میں پہلا گھرانا کیماڑی میں ڈاکٹر عثمانی کا تھا جو شعبہ ماس کمیونیکیشن اردو کالج کے موجودہ پروفیسر سعید عثمانی کے والد ہیں۔ ڈاکٹر صاحب، جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے، 1957 میں مولانا امین اصلاحی کے ساتھ جماعت سے اختلاف رائے کے بعد علیحدہ ہوگئے تھے لیکن ان کی اہلیہ 1975 میں انتقال تک بدستور جماعت کی رکن رہیں۔ ان کا گھر جماعت کے کارکنوں کے لئے اُن کے اپنے گھر کی طرح تھا۔

 

کیماڑی میں جماعت کا دفتر بھی اُن کے گھر کے ایک کمرے میں ڈاکٹر صاحب کے زمانے سے چلا آرہا تھا۔ کیماڑی میں اُن کا گھر ہمارا دوسرا گھر تھا۔ اُن کے تین بیٹے سعید عثمانی، جمیل عثمانی اور شکیل عثمانی ہمارے بھائیوں کی طرح تھے اور اُن کی والدہ ہمیں بھی اُن ہی کی طرح سمجھتی تھیں۔ دوسرا گھرانا انور اور اکرم کلہوڑی کا گھاڑی کھاتہ میں واقع گھر تھا جہاں ہماری طرح جمعیت کے دسیوں کارکن ہر وقت، جب جی چاہے، آسکتے تھے اور گھر کے افراد کی طرح کھا پی سکتے تھے۔ اِس کا سہرا اکرم کلہوڑی کی والدہ کے سر تھا جو جمعیت کے ساتھیوں کو بھی اپنے بچوں کی طرح سمجھتی تھیں۔ تیسرا گھر حُسین ڈی سلوا ٹاؤن، نارتھ ناظم آباد میں اعجاز شفیع گیلانی (گیلپ پاکستان) کا تھا، جن کے ساتھ ہمارا تعلق بھائیوں سے بھی بڑھ کر تھا۔ اور اُن کی والدہ ”باجی جان“ ہمیں بھی اعجاز ہی کی طرح چاہتی تھیں۔


‎والد صاحب کراچی ہی میں تھے جب ہم نے اعجاز اور سعید عثمانی کی والدہ سے اِس بارے میں بات کی اور اُن دونوں سے عرض کیا کہ وہ ہمارے حالات کے مطابق جس بھی رشتے کو مناسب خیال کریں، پسند کر لیں، ہمیں منظور ہوگا۔

دونوں نے فون پر آپس مشورہ کیا اور رشتے کی تلاش شروع کردی۔ انہوں نے یہ کام کئی روز تک مشترکہ طور پر جاری رکھا۔ بیگم ڈاکٹر عثمانی ٹیکسی پر صبح نو، دس بجے کیماڑی والے گھر سے نکلتیں، حسین ڈی سلوا ٹاؤن، نارتھ ناظم آباد سے اعجاز کی والدہ کو ساتھ لیتیں اور اُن گھروں میں جاتیں جہاں سے رشتے آئے ہوئے ہوتے یا جہاں کوئی معقول رشتہ ہونے کی نشان دہی ہوتی تھی۔ وہ فون پر ہمیں ہر روز کی رپورٹ بھی دیتی رہتیں۔ ایک رشتہ ایک بریگیڈیئر صاحب کی بیٹی کا بھی تھا۔

 

بریگیڈیئر صاحب کو ہمارے بارے میں بتایا گیا تو اُنہوں نے ہمیں ساتھ لانے کے لئے کہا۔ دوسرے دن ہم تینوں ایک ساتھ ”حاضر“ ہوگئے۔ اُنہوں نے ہم سے کئی سوالات بھی کئے جن کے مناسب جوابات دے دیئے گئے۔ پھر تواضع کے لئے ماکولات لائے گئے جن میں موسم کے لحاظ سے ایک ٹرے میں سالم آم اور پھل کاٹنے کی چھری بھی تھی۔ ہم سے کہا گیا کہ آم تناول کریں۔ ہمیں آم کاٹنے کا طریقہ نہیں آتا تھا اس لئے آم کاٹتے ہوئے ہمارے ہاتھ بری طرح آم کے رس سے لتھڑ گئے۔ بریگیڈیئر صاحب یہ ”ہول ناک“ منظر دیکھتے اور برداشت کرتے رہے۔

 

ہم اس وقت وہاں سے بخیریت چلے آئے دوسرے دن انہوں فون پر رشتہ قبول نہ کرنے کی اطلاع دے دی۔ اُن کو ہمارا آم کاٹنے اور کھانے کا طریقہ پسند نہیں آیا تھا۔ ہمیں بھی اُن کا یہ انکار اچھا لگا تھا کیوںکہ اُن کی حیثیت اور مرتبہ ہمارے موافق نہیں تھا۔

‎ہماری اُن قابل قدر ماؤں ں کی کوششوں کے باوجود ہمارے حسب ِ منشا اور حیثیت کوئی مناسب رشتہ نہیں مل رہا تھا کہ اچانک جمعیت کے ایک ساتھی ملک محمد شریف نے، جو بعد میں ایس ایم سائنس کالج سے پروفیسر کی حیثیت ریٹائر ہوئے، ایک رشتہ بتایا۔ ہم نے اُس کا ذکر اُن دونوں معزز خواتین سے کیا۔ اُنہوں نے لڑکی کو دیکھا تو پسند کرلیا۔

 

میں اُن پر پورا بھروسا تھا اور اُن کو بھی یقین تھا کہ جو رشتہ وہ پسند کریں گی، اُسے ہم کسی پس وپیش کے بغیر قبول کرلیں گے چناں چہ اُن دونوں بزرگ خواتین نے اُسی وقت بات پکی کردی اور ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی کی والدہ نے اپنی انگلی سے طلائی انگوٹھی اُتار کر لڑکی کو پہنا بھی دی، جس کی اطلاع اُنہوں نے اُسی شام ہمیں دے دی اور ہم نے بخوشی تسلیم کر لیا اور کہا جو رشتہ آپ نے پسند کر لیا وہ ہمیں بھی پسند ہے۔ پھر ایک دن باقاعدہ منگنی کی سادہ سی تقریب بھی منعقد کی گئی۔ یہ لڑکی جمیلہ بیگم تھیں جو ہماری شریک حیات بنیں۔ منگنی کی تقریب میں اعجاز شفیع گیلانی کی والدہ ”باجی جان“ اور اُن کے گھرانے کے دیگر افراد، سعید عثمانی کے بھائیوں اور والدہ نے بالکل اُسی طرح حصہ لیا جیسے اُن ہی کے گھرانے کے کسی فرد کی منگنی ہو۔

 

”مولوی صاحب“ یہاں سب ایڈیٹر ہیں، اُن کی تنخواہ 323 روپے ماہانہ ہے اور بڑے شریف اور شرمیلے سے ہیں

‎ہماری منگنی ہوئے چھ ماہ گزرگئے تھے۔ اِسی دوران میں ہمارے بارے میں ہمارے استاد ظفر رضوی سے معلومات حاصل کرنے کا واقعہ بھی پیش آیا جو اس قدر متاثرکن ہے کہ ہم اُسے یہاں بیان کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ دراصل ہماری ہونے والی بیگم کے بڑے بھائی خلیل الرحمن انصاری لاہور میں رہتے تھے ان کو اس رشتے کا علم ہوا تووہ کراچی آگئے۔اُنہوں نے ہمارے بارے میں ہمارے دفتر کے ساتھیوں اور دیگر جاننے والوں سے معلومات حاصل کرنا شروع کر دیں کہ لڑ کا کیسا ہے، کس خاندان کا ہے، مالی حیثیت کیا ہے اور اُس کا مزاج کیسا ہے؟اُس نے اپنے بارے میں جو کچھ ہمیں بتایا ہے، وہ درست ہے یا نہیں وغیرہ وغیرہ۔ وہ یہ معلومات بہت ہی محتاط طریقے سے حاصل کر رہے تھے۔ اِسی ”مہم“ کے دوران میں ایک دفعہ ہماری چھٹی کے دن روزنامہ جنگ کے دفتر بھی آگئے۔ اُس زمانے میں آج کی طرح سخت سیکوریٹی نہیں ہوا کرتی تھی، ہر شخص خبر دینے نیوز روم میں بھی آ سکتا تھا۔ چناںچہ وہ بھی جنگ بلڈنگ کی دوسری منزل پر واقع نیوزروم میں پہنچ گئے۔ ظفر رضوی صاحب کسی کی فون پر ”تواضع“ کر رہے تھے۔ اُس سے فارغ ہوئے تو خلیل صاحب کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا، ”بھائی صاحب! خبر دیجئے اور جایئے۔“ جس پر خلیل بھائی نے کہا، ”مَیں خبر دینے نہیں، خبر لینے آیا ہوں۔“ اور اپنی آمد کا مقصد بیان کرتے ہوئے کہا، ”آپ کے یہاں عارف الحق نام کا ایک لڑکا کام کرتا ہے، اُس کے ساتھ میری بہن کا رشتہ طے ہو رہا ہے۔ مَیں اُس کے بارے میں کچھ معلومات اور آپ کی رائے لینے حاضر ہوا ہوں۔“ ظفر رضوی نے کہا، پو چھئے کیا پوچھنا ہے؟ اس کے جواب میں اُنہوں نے وہ سارے سوال پوچھ ڈالے جو وہ ہمارے بارے میں رائے قائم کرنے کے لئے ضروری سمجھتے تھے۔ ظفر رضوی بھائی نے ایک ایک سوال کا جواب دیا اور تصدیق کی کہ ”مولوی صاحب“ یہاں سب ایڈیٹر ہیں، اُن کی تنخواہ 323 روپے ماہانہ ہے اور بڑے شریف اور شرمیلے سے ہیں۔ ہماری پوری کوشش کے باوجود گالم گلوج کی طرف مائل نہیں ہیں۔ یہ سب کچھ بیان کرنے کے بعد ظفر رضوی صاحب نے اُن سے جو کچھ کہا، اس نے خلیل بھائی کو حیران اور اُس کے ساتھ پریشان بھی کر دیا۔

 

‎ظفر بھائی نے ذرا بلند آواز میں اُن سے کہا کہ ”بھائی صاحب! آپ نے بہت اچھا کیا کہ پوچھ گچھ کر رہے ہیں، اور اِس سلسلے میں میرے پاس بھی آئے ہیں۔ مَیں آپ کو یہ سب کچھ بتانے کے بعد اتنا ضرور کہوں گا کہ میرے اور عارف کے نظریات اور مسلک میں بڑا فرق ہے۔ مَیں سوشلسٹ ہوں وہ جماعتیہ ہے۔ مَیں شیعہ ہوں، وہ سُنّی ہے۔ ہمارے نظریاتی اختلافات اِس قدر ہیں کہ اگر ہم ایک دوسرے کی مخالفت میں ساری حدود پار بھی کر دیں تو کسی کو تعجب نہ ہوگا، مگر اُس لڑکے کو مَیں نے جتنا اِس دو ڈھائی سال کے عرصے میں دیکھا اور پرکھا ہے اور جتنا میں اُس کی ذات کو جان پایا ہوں، اس کے بعد صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ اگر میری کوئی بیٹی یا بہن ہوتی اور عارف کا رشتہ آتا تو مَیں آنکھیں بند کر کے ہاں کر دیتا اور یہ میرے لئے بڑی خوشی کی بات ہوتی۔آپ بھی ایسا ہی کریں۔“ ظفر رضوی صاحب کی اِس ایک بات نے اُنہیں بڑا متاثر کیا اور اُن کو اپنے پوچھے گئے سارے سوالات کے جواب بھی مل گئے۔ اُن کی ہمارے بارے میں تفتیشی مہم کا یہ آخری دورہ ثابت ہوا اور وہاں سے واپسی کے بعد پھر کبھی کسی اور سے ہمارے بارے میں کوئی سوال نہیں کیا۔ بلکہ اِس کے بعد وہ ہمارے سب سے بڑے حامی بن گئے اور اِس رشتے کو مضبوط کرنے کے لئے بڑا اہم کردار ادا کیا۔ ہمیں اِس واقعے کا کوئی علم نہیں تھا کیوںکہ ہم سے ظفر رضوی اور خلیل بھائی، دونوں میں سے کسی نے کبھی کوئی تذکرہ نہیں کیا تھا۔ ہمیں اِس کا علم شادی کے قریباً دس سال بعد اُس وقت ہواجب ایک بار ہم سب چُھٹیوں میں لاہور گئے ہوئے تھے کہ ایک دن اچانک خلیل بھائی نے ہم سے ظفر رضوی صاحب کی خیریت دریافت کی۔ ہم نے حیرانی سے پوچھا کہ آپ ظفر بھائی کو کیسے جانتے ہیں؟ تب اُنہوں نے اُس کے جواب میں یہ سارا واقعہ سنایا۔ ہم حیران تھے کہ ُان دونوں میں سے کسی نے بھی ہمیں اِس بات کی کبھی خبر نہ ہونے دی۔ کراچی واپسی کے بعد ہم نے دفتر میں ظفر رضوی صاحب سے شکوہ کیا کہ آپ نے ہمیں اِس کے بارے میں کبھی کچھ نہیں بتایا؟ تو اُنہوں نے کہا کہ ”مجھے آپ کے سالے صاحب نے سختی سے منع کر دیا تھا، وہ نہیں چاہتے تھے کہ اِس ’معلوماتی دورے‘ کی اطلاع آپ تک پہنچے۔ مَیں تو صرف اُن سے کئے گئے ایک وعدے کی پاس داری کر رہا تھا۔“
‎ہماری سسرال ناظم آباد نمبر5، پاپوش نگر میں تھی، جو ہمارے گھر کے قریب ہی تھی۔ اُن کا تعلق دہلی سے تھا، دہلی والے قسم قسم کے مزے دار کھانے پکانے میں مشہور ہیں۔ منگنی کے اُن چھ سات ماہ کے دوران میں کئی مرتبہ ہمیں اُن کے گھر سے بھیجے گئے طرح طرح کے پکوان کھانے کے مواقع ملے، جن میں قورمہ، نہاری، کھڑے مسالے کا قیمہ، دہلی کی بریانی، مٹن اور مرغ کڑاہی، کھیر، شیرمال اور تافتان خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ہمارے لاہور والے برادر ِنسبتی، خلیل بھائی کا ایک بیٹا ضیاءالرحمن کراچی میں اپنے چچا اقبال انصاری کے یہا ں رہتا تھا۔ وہ ہر تیسرے چوتھے روز ٹفن کیرئر میں کچھ نہ کچھ کھانا لے آتا۔ یہ سلسلہ شادی تک جاری رہا۔ اِس عرصے میں ہمارے کھانے کا ذائقہ بدل گیا تھا جس کے بعد سے ہمیں دہلی کے کھانوں کی عادت سی پڑگئی جو اب تک چھوٹے نہیں چھوٹتی۔