مالیاتی فراڈز پر قابو پانے میں سائبر کرائم ونگ اور پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی کی مشترکہ ٹیمیں ناکام ہیں- فائل فوٹو
 مالیاتی فراڈز پر قابو پانے میں سائبر کرائم ونگ اور پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی کی مشترکہ ٹیمیں ناکام ہیں- فائل فوٹو

سائبرکرائمزکی وارداتیں 83 فیصد بڑھ گئیں

عمران خان:
ملک بھر میں سائبر کرائم کی وارداتیں ہولناک حد تک بڑھ گئیں۔ دو ہزار سے اٹھارہ سے دو ہزار بائیس کے دوران پانچ برسوں میں انٹر نیٹ اور موبائل فون نیٹ ورک کو استعمال کرکے کی جانے والی وارداتوں میں تراسی فیصد اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ برس اور رواں برس کے دوران ان وارداتوں کا تناسب ابھی تک لگ بھگ برابر ہے۔ دو ہزار اکیس کے پہلے دس ماہ میں اسّی ہزار سے زائد، جبکہ دو ہزار بائیس کے پہلے دس ماہ میں اٹھتّر ہزار سے زائد وارداتوں کی شکایات ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کو موصول ہوئی ہیں۔ مالیاتی فراڈز اور جعلی سموں کے اجرا کی وارداتوں میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ جن کی شکایات کا تناسب مجموعی درخواستوں میں تیس فیصد سے بھی بڑھ چکا ہے۔ جس پر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ اور پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی (پی اے ٹی) مشترکہ طور پر قابو پانے میں ناکام ہیں۔ دو ہزار اکیس اور دو ہزار بائیس کے دوران ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے ملک بھر میں قائم سرکلوں کی زیادہ تر توجہ خواتین کو بلیک میل کرنے میں ملوث ملزمان اور چائلڈ پورنو گرافی میں ملوث مشتبہ افراد کی گرفتاریوں پر مرکوز رہی ہے۔ مالیاتی فراڈز پر قابو پانے میں ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کو تکنیکی مسائل کے ساتھ ساتھ وسائل کی کمی کا بھی سامنا ہے۔ جس کی وجہ سے عوام میں جعلسازوں کے طریقہ واردات سے متعلق آگاہی پیدا کر کے ان کے انسداد کی کوشش کو زیادہ فوقیت دی جا رہی ہے۔
’’امت‘‘ کو موصول ہونے والی معلومات کے مطابق پاکستان میں چونکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ موبائل اور انٹرنیٹ استعمال کرنے والوںکی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس لئے انٹر نیٹ اور موبائل فونز سموں کے ذریعے سائبر کرائمز کا نشانہ بننے والوں کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے حکام کے مطابق اس وقت ملک میں جس نوعیت کے سائبر کرائم سر فہرست ہیں اور جس پر شہریوں کی درخواستیں ایف آئی اے کو موصول ہو رہی ہیں۔ ان میں مالیاتی فراڈ، بلیک میلنگ، جنسی ہراسانی، ذاتی معلومات کی چوری اور اس کا منفی استعمال، دھمکی آمیز پیغامات، ریاست اور اداروں کے خلاف منفی سرگرمیاں، مذہبی منافرت اور اشتعال انگیزی شامل ہیں۔
پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک کی بائیس کروڑ آبادی میں انیس کروڑ چوالیس لاکھ افراد کے ناموں پر موبائل فونز فعال ہیں۔ جبکہ بارہ کروڑ دس لاکھ صارفین موبائل فونز سموں پر تھری جی اور فور جی انٹر نیٹ استعمال کر رہے ہیں۔ بائیس کروڑ میں سے باہ کروڑ چالیس لاکھ شہریوں کو براڈ بینڈ یعنی تیز ترین انٹر نیٹ سروس کی سہولت بھی حاصل ہے۔ جس میں وہ وائی فائی ڈیوائسز پر انٹر نیٹ استعمال کر رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں ایک بڑی تعداد انتالیس فیصد خواتین کی شامل ہے۔ جو کہ اس وقت واٹس ایپ، فیس بک، ٹوئٹر اور ای میل سروسز کے ساتھ مختلف سوشل میڈیا ایپس استعمال کر رہی ہیں۔
ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کی اپنی رپورٹ کے مطابق گزشتہ 5 برسوں کے دوران سائبر کرائم کا نشانہ بننے والے مرد و خواتین اور بچوں کے حوالے سے شکایات میں بے انتہا اضافے کے بعد سائبر کرائم رپورٹنگ سینٹرز کی تعداد کو بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا۔ دو ہزار اکیس سے پہلے تک اسلام آباد، لاہور، پشاور، کراچی اور کوئٹہ میں ہی سائبر کرائم ونگ کے صوبائی دفاتر قائم تھے۔ جن کی تعداد اب بڑھا کر ملک بھر کے بیس سے زائد صوبوں میں پھیلا دی گئی ہے۔ یعنی ان بیس بڑے شہروں میں ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے رپورٹنگ سینٹرز یعنی تھانے قائم ہیں۔ جہاں پر سائبر کرائم کا نشانہ بننے والوں کی درخواستوں پر انکوائری کے بعد مقدمات درج کرکے عدالتوں میں کیس پیروی کی جا رہی ہے۔
ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے افسران کے مطابق جتنی رفتار سے وارداتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے لئے اب بھی تھانوں کی تعداد کم ہے۔ اسے کم سے کم از کم ہر ضلع کی سطح پر ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ ہر قسم کی وارداتوں میں موبائل فونز اور انٹر نیٹ کا ہی استعمال ہو رہا ہے۔ تاہم فی الوقت بجٹ کے مسائل بہت زیادہ ہیں۔ اس میں سالانہ سینکڑوں ارب روپے کی ضرورت ہے۔ افرادی قوت اور جدید فارنسک تکنیکی سامان بھی درکار ہے۔ جس کی فی الوقت انتہائی قلت ہے۔
ملک میں جعلی انعامی اسکیموں، سرکاری امدادی اور فلاحی منصوبوں، بینک صارفین کے کھاتوں، موبائل کمیونیکشن کمپنیوں کے مائیکرو بینکنگ نظام سے متعلق، جھانسے اور فراڈ کے ذریعے ہونے والے مالیاتی فراڈز کی وارداتوں سے اضافے سے متعلق ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ تمام تر شکایات کے باوجود پی ٹی اے موبائل فونز کی جعلی سموں کا اجرا روکنے میں ناکام ہے۔ یہی سمیں مالیاتی فراڈ کی وارداتوں کے لئے استعمال کی جا رہی ہیں۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق جعلی سموں کے ذریعے مالیاتی فراڈ اور غیر قانونی سرگرمیوں میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ جعلی سموں کے اجرا کے لیے اصلی شناختی کارڈ استعمال کیے جاتے ہیں۔ لیکن حکام کی جانب سے سم بلاک کرنے یا جعلسازوں کے خلاف کوئی جامع منصوبہ بندی بنا کر عمل در آمد شروع نہیں کیا گیا۔ مزید یہ کہ ملزمان جعلی سموں کو جاری کرنے کے لئے جعلی سلیکون انگوٹھوں کا استعمال کر رہے ہیں۔ ایف آئی اے سائبر کرائمز کی دستاویز کے مطابق سال دو ہزار بائیس میں جعلی سموں کی اٹھاسی ہزار سے زائد شکایات سامنے آئیں۔ جبکہ ان جعلی سموں کے استعمال سے ہونے والے مالیاتی فراڈز کی اب تک چوبیس ہزار وارداتیں ستمبر کا مہینہ شروع ہونے تک رپورٹ کی گئیں۔ جن پر ایف آئی اے نے ان فراڈ میں ملوث چار سو پندرہ جعلسازوں کو گرفتار بھی کیا۔ اعداد و شمار کے مطابق کل شکایات میں سے تین ہزار آٹھ سو چورانوے کو باقاعدہ انکوائریوں میں تبدیل کیا گیا۔ مجموعی طور پر تین سو باون مقدمات درج کئے گئے۔ اسی طرح دو ہزار بائیس میں اب تک چائلڈ پورنو گرافی یعنی بچوں سے زیادتی کے مواد کے حوالے سے پچاس سے زائد مقدمات درج کرکے پچپن ملزمان کو گرفتار کیا گیا۔