کراچی: نیشنل میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج داخلہ ٹیسٹ (ایم ڈی کیٹ) کے متاثرہ طلبہ و طلبات نے ڈاؤ یونیورسٹی اور پاکستان میڈیکل کمیشن کے امتحانی نظام کے خلاف احتجاج کیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان میڈیکل کمیشن (پی ایم سی) نے 13 نومبر کو ایم ڈی کیٹ 2022 انعقاد کیا اور ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ اینڈ سائنسز (ڈی یو ایچ ایس) کو ہدایت کی کہ وہ اپنی جانب سے سندھ میں ایم ڈی کیٹ امتحانات منعقد کرے، اس سال کے ایم ڈی کیٹ 200 کثیر الانتخابی سوالات پر مبنی پیپر تھا جس میں حیاتیات، کیمیائی، فزکس اور انگریزی پارٹ شامل تھے۔
طلبا کے مطابق ایم ڈی کیٹ کے امتحانی پرچے میں 30 کثیرالانتخابی سوالات ایسے تھے جو کہ نصاب کے باہر سے لیے گئے تھے، ہم نے ڈاؤ یونیورسٹی کے وائس چانسلر سے طلبا کو ان 30 سوالات کے خلاف انھیں اضافی گریس مارکس فراہم کرنے کے لیے کہا تو انھوں نے مطالبات کی منظور کرنے سے انکار کر دیا تھا جس کے خلاف ایم ڈی کیٹ کے متاثرہ طلبہ و طالبات نے سول اسپتال سے منسلک ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے مرکزی دروازے پر دھرنا دیدیا۔
طالبعلموں نے مطالبہ کیا کہ امتحان کے بعد کا تجزیہ کسی تھرڈ پارٹی یا غیر جانبدار یونیورسٹی کے ذریعہ کیا جائے گا جیسا کہ ایم ڈی کیٹ 2021 میں کیا گیا ہے جو سوالات نصاب سے باہر کے ثابت ہوئے تو متاثرہ طلبہ و طالبات کو اضافی گریس مارکس فراہم کیے جائیں، سوالیہ پرچہ اور کیز کو ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز یا پاکستان میڈیکل کمیشن کی آفیشل ویب سائٹ پر شائع کیا جائے، تمام مسائل کے حل ہونے تک داخلہ کا عمل روک دیا جائے۔
مظاہرین نے کہا کہ ہمارے مارکس بھی کم کردیے گئے ہیں، جس کی وجہ سے متعدد طالبعلموں کو فیل بھی کر دیا گیا ہے، ہمارے مستقبل کے ساتھ کھیلا جارہا ہے، انتظامیہ بات تک کرنے کو نہیں تیار، ایم ڈی کیٹ کے ٹیسٹ میں بے ضابطگیاں دیکھی گئی ہیں بہت سے سوالات نصاب میں نہیں تھے، پی ایم سی کی جانب سی کی گئی غفلت سے جو نقصان ہوا۔
اس کا اذالہ کون کرے گاجبکہ احتجاج میں شامل سینئر سیاستدان ڈاکٹرفاروق ستار نے کہا کہ سالہہ سال سے سندھ کے نوجوان کے ساتھ ظلم و زیادتی کا سلوک کیا جا رہا ہے، ایم ڈی کیٹ کے نام پر نوجوان کے مستقبل اور تعلیم کا قتل کیا جارہا ہے، اصول کے مطابق ہر صوبے کے سوالات اس صوبے کی مناسبت سے آنے چاہیں، لیکن اس امتحان کے 33سوالات صوبے کے نصاب سے باہر تھے، جوابات کی کیز بھی غلط تھیں۔
پی ایم سی، ڈاؤ یونیورسٹی، وفاقی اور صوبائی حکومت کسی حکومت کے پاس طلبا و طلبات کے مسائل کے لیے وقت نہیں، اگر یہ مسائل حل نہیں کیے گئے تو سڑکوں پر مظاہرین تنظیم کی صورت نکلیں گے، ان کے ساتھ انصاف کیا جائے اور تجزیہ کسی غیر جانبدار ادارے سے لیا جائے یا امتحانات دوبارہ لیے جائیں۔