انور مقصود کی سیاسی صورتحال پر طنزو مزاح سوشل میڈیا پر وائرل

معروف ڈرامہ و افسانہ نگار طنز کے ماہر انور مقصود کے حالیہ بیان نے سوشل میڈیا پر جلتی پر پیٹرول کا کام کرتے ہوئے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔

کراچی آرٹس کونسل میں چار روزہ عالمی اردو کانفرنس گزشتہ روز اختتام پذیر ہوئی، کانفرنس میں وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سمیت نامور ادیبوں، شعرا اور دیگر فنکاروں نے شرکت کی۔

کانفرنس میں جب انہیں خطاب کا موقع دیا گیا تو انور مقصود نے انور مقصود نے ”اکیسویں صدی کا پاکستان“ کے حوالے سے کہا کہ ’ہر حکومت نے غریبوں کو ”جانور“ سمجھا، ان لوگوں کو عوام کا خیال صرف الیکشن کے دنوں میں آتا ہے، سائرن بجا کر لوگوں کو بھگا دیا جاتا ہے اور بریانی کے پیکٹ پھینک دیے جاتے ہیں۔ بھئی کتنا کماؤ گے، کتنا لوٹو گے، کتنا جھوٹ بولو گے؟ غریب تو اب کہتے ہیں آپ کی طاقت کے سوا اب کوئی طاقت نہیں، کچھ بچا ہی نہیں میرے لیے جنت کے سوا۔“

ہمارے وزیراعظم چھ سات ملکوں کے سامنے ہاتھ پھیلا چکے ہیں، غریب کہتے ہیں کہ ہمیں بدنام نہ کریں اپنے لیے مانگیں۔‘

انہوں نے وزیراعظم کے غیرملکی دوروں میں قرضوں کی بات پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے وزیراعظم چھ سات ملکوں کے سامنے ہاتھ پھیلا چکے ہیں، غریب کہتے ہیں کہ ہمیں بدنام نہ کریں اپنے لیے مانگیں۔‘

انور مقصود نے کہا کہ ’باجوہ صاحب نے اپنی الوداعی تقریر میں کہا تھا فوج نے فیصلہ کیا ہے وہ سیاست سے پرہیز کرے گی، اس کا مطلب ہے 74 برس فوج نے سیاست سے بدپرہیزی کی ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’امیروں کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں جب قرضہ مل جاتا ہے تو ایوان تالیوں سے گونج اٹھتا ہے، میں مزید کچھ الٹا سیدھا بول کر اپنے کپڑے پنجاب پولیس سے نہیں اتروانا چاہتا۔‘

انور مقصود نے کہا کہ ’پاکستان میں 60 فیصد غریب ہیں اور 40 فیصد فوج ہے، امیروں کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں جب قرضہ مل جاتا ہے تو ایوان تالیوں سے گونج اٹھتا ہے۔‘

 

پاکستان کی کہانی ایک فلم کی طرح ہے جو 75 برس سے چل رہی ہے، ہدایتکار پنجاب، شوٹنگ بلوچستان میں ہوئی ہے

انہوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان کی کہانی ایک فلم کی طرح ہے جو 75 برس سے چل رہی ہے، ہدایتکار پنجاب، شوٹنگ بلوچستان میں ہوئی ہے، پس پردہ موسیقی آرمی کا بینڈ، فلم کا انٹرویل 1971 میں ہوتا ہے جب مشرقی پاکستان بنگلا دیش بن گیا، انٹرویل کے بعد فلم ایک ملی نغمے سے شروع ہوتی ہے، اس کے بعد فل کا ہیرو جو سندھی ہے ایک بڑھئی کے پاس جاتا ہے اور کہتا ہے ایک ایسا تختہ چاہئیے جسے الٹا نہ جائے۔‘

 

ایک طرف جہاں انور مقصود کے اس بیان کو دلیرانہ گردان کر سراہا جارہا ہے تو دوسری جانب اس پر معافی کا مطالبہ بھی کیا جارہا ہے۔

انور مقصود نے مولانا فضل الرحمان کے خواتین کے حوالے سے دئے گئے بیان پر بھی طنز کرتے ہوئے کہا کہ ”جیسے ان کی ماں نہیں دونوں باپ تھے۔“