انٹرنیٹ کی رسیا نئی تہذیب ناسور بن گئی

انٹرنیٹ کی رسیا نئی تہذیب ناسور بن گئی

سید علی حسن:قسط نبمر1

انٹر نیٹ کے زیر اثر نئی تہذیب تیزی سے معاشرے میں سرایت کررہی ہے۔ اس کے نتیجے میں جو المناک سماجی واقعات جنم لے رہے ہیں، ان میں سے ایک کچی عمر میں والدین کی مرضی کے خلاف پسند کی شادی ہے۔ نو عمر لڑکیوں کو چونکہ ورغلانا آسان ہے، لہذا وہ خاندان کی عزت کو داؤ پر لگا کر اپنے خود ساختہ خوابوں کی تکمیل کے لئے اس چھت کو خیرباد کہہ دیتی ہیں جو انہیں ریا سے پاک خالص تحفظ فراہم کررہی ہوتی ہے۔ اس کے بعد المناک واقعات کا ایک لامتناعی سلسلہ شروع ہوتا ہے،

 

جس میں والدین اور خاندان کی عزت تو خاک میں ملتی ہی ہے، یہ قدم اٹھانے والی نادان بچیوں کو بھی ایک ایسی دوزخ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس کی آزمائش کے اثرات تا عمر ان کی زندگی پر مرتب ہوتے رہتے ہیں۔ اس سارے قصے میں والدین کو کسی طور بری الزمہ قرار نہیں دیا جاسکتا کہ ان کو اس وقت ہوش آتا ہے، جب پانی پلوں سے گزر جاتا ہے۔
اس نوعیت کے واقعات میں قدر مشترک یہ ہے کہ والدین کی مرضی کے بغیر گھر چھوڑنے والی بچیوں کی شادیوں کا انجام زیادہ تر علیحدگی کی شکل میں نکل رہا ہے۔ عموماً لڑکیاں دارالعلوم کے حوالے کردی جاتی ہیں۔ لڑکا جیل جاتا ہے اور عدالتوں کا چکر لگاتے والدین کی جوتیاں گھس جاتی ہیں۔ ماں باپ ایسی شادی کو تسلیم کرنے کے بجائے عموما لڑکے والوں پر اغوا کا مقدمہ درج کرانے کو ترجیح دیتے ہیں۔

انٹرنیٹ کی رسیا نئی تہذیب ناسور بن گئی

اس نوعیت کا ایک کیس کچھ عرصہ پہلے روایتی اور سوشل میڈیا پر اس قدر ہائی لائٹ ہوا کہ عدالت کو کمسن لڑکی کا نام میڈیا میں لینے پر پابندی لگانی پڑی ۔یہ قصہ سب کے علم میں ہے۔ کراچی کے رہائشی لڑکی کے والدین کا اصرار تھا کہ ان کی بیٹی نابالغ ہے لہذا سندھ چائلڈ میرج ریسٹرین ایکٹ کی دفعات کے تحت یہ شادی غیر قانونی ہے۔ انہوں نے حسب روایت لڑکے(ظہیر احمد) والوں کے خلاف اغوا کا مقدمہ درج کرایا تھا۔ لڑکی کے والد مہدی کاظمی نے اپریل دو ہزار بائیس میں الفلاح تھانے میں بیٹی کے اغوا کا مقدمہ درج کرایا۔ جس میں کہاگیاتھا کہ سولہ اپریل کو دوپہرایک بجے اہلیہ نے بتایاکہ ان کی چودہ سالہ بیٹی گھر پر موجود نہیں ہے۔ جس کے بعد تھانہ پولیس اور عدالتوں کے چکر شروع ہوئے، یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔

یعنی مقدمہ اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکا ہے۔ البتہ لڑکی کے والد کی جانب سے الفلاح پولیس اسٹیشن میں درج مقدمہ سے اغوا کی دفعات ختم کرکے سندھ چائلڈ میرج ریسٹرین ایکٹ کی دفعات کے تحت ظہیر احمد، اس کی والدہ نور منیر، نکاح خواں اور دو گواہان شبیر اور اصغر علی کوملزم نامزد کیا گیا۔ دوسری جانب لاہور کے رہائشی لڑکے والوں کا مؤقف تھا کہ لڑکی نے اپنی مرضی سے پسند کی شادی کی ہے اور یہ کہ لڑکی اٹھارہ برس سے زیادہ عمر کی ہے۔ عمر کے تنازع کو لیکر یہ معاملہ کئی روز تک عدالت میں چلتا رہا۔ قصہ مختصر لڑکی دارالامان بھیج دی گئی۔

 

ظہیر احمد کے خلاف سندھ چائلڈ میرج ریسٹرین ایکٹ کی دفعات کے تحت مقدمہ درج ہوا ۔گرفتاری عمل میں آئی۔ بعد ازاں ظہیر احمد نے ضمانت کرالی۔ یہ کیس اب بھی سٹی کورٹ میں زیر سماعت ہے، جہاں تفتیشی افسر کی جانب سے مقدمہ کا چالان جمع کرایا جاچکا ہے۔ تاہم ملزمان پر فرد جرم عائد ہونا اور گواہان کے بیانات باقی ہے۔ جبکہ بدستور لڑکی شیلٹر ہوم میں زندگی کے کٹھن دن گزار رہی ہے۔ یوں ایک لغزش نے دو گھرانوں کی زندگیوں کو جہنم بنا رکھا ہے۔

یہ ایک مہدی کاظمی اور ظہیر کے گھرانے کی کہانی نہیں۔ ایسی متعدد داستانیں مقدمات کی شکل میں عدالتوں میں بکھری پڑی ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ اس طرح کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، یہاں بھی قدر مشترک یہ ہے کہ ان المناک کہانیوں میں بنیادی رول انٹر نیٹ کا منفی استعمال ہے۔ کیونکہ المیہ کا آغاز نو خیز جوڑوں کے مابین سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارم کے ذریعے رابطے سے ہوتا ہے۔ ’’امت‘‘ کی تحقیق کے مطابق کراچی کی مختلف عدالتوں میں اس وقت اسی نوعیت کے دس مقدمات زیر سماعت ہیں۔

ان میں سے ایک کیس کی تفصیلات سن کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ یہ کراچی کے علاقے گلشن معمار کے رہائشی بوڑھے والدین کے گھر کی المناک کہانی ہے۔ جن کی ایک نہیں، دو نہیں، چار بچیاں گھر سے غائب ہیں۔ بوڑھے ماں باپ پچھلے پانچ برس سے بچیوں کی جدائی کے صدمے کو جھیل رہے ہیں۔ بے خوابی کا شکار معمر والدین روز آنسوؤں سے گندھے آٹے کی روٹیاں کھاتے ہیں۔ لیکن تاحال یہ کیس حل نہیں ہوسکا ہے۔ اس قصے کا آغاز دو ہزار سترہ میں ہوا تھا جب بزرگ علی گل عباسی کی دو جواں سال بیٹیاں پر اسرار طور پر لاپتا ہوگئیں۔

ابھی اس صدمے کا بوجھ کم نہیں ہوا تھا کہ دو برس بعد دو ہزار انیس میں علی گل عباسی کی مزید دو نوعمر بچیاں اسی قسم کے واقعے کا شکار ہوئیں۔ حسب روایت دونوں بار علی گل عباسی نے متعلقہ پولیس سے رابطہ کیا۔ وہ اپنی چاروں بیٹیوں کے اغوا کا مقدمہ درج کرانا چاہتا تھا۔ تاہم پولیس کا مؤقف تھاکہ ان لڑکیوں نے اپنی مرضی سے شادی کرلی ہے۔ پانچ برس تک تھانے کچہری کے دھکے کھانے کے بعد بھی جب علی گل کے دکھوں کا مداوا نہیں ہوا تو آخر کار اپنی بچیوں کی بازیابی کے لئے اس نے عدالت سے رجوع کرلیا۔ گزشتہ ماہ نومبر میں علی گل نے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔ اب اس کیس کی سماعت چھبیس دسمبر کو ہوگی۔ اگرچہ لڑکی کے باپ کا مؤقف ہے کہ اس کی چاروں بیٹیوں کو بااثر وڈیروں نے اغوا کیا اور پنجاب لے گئے۔

 

’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے بھی انہوں نے اپنا یہی مؤقف دہرایا اور یہ بھی کہا کہ اگر پولیس مؤقف کے مطابق لڑکیوں نے اپنی مرضی سے شادی کرلی ہے تو پھر پولیس ان کے نکاح نامے عدالت میں کیوں پیش نہیں کررہی ہے؟ لڑکیوں کے اغوا سے متعلق علی گل کا مؤقف اپنی جگہ پر ہے، تاہم کسی نہ کسی طرح اس المناک واقع کے تانے بانے بھی پسند کی شادی سے ملنے کے امکان کو خارج نہیں کیا جاسکتا۔ مہدی کاظمی کی بیٹی کے کیس کے مقابلے میں علی گل کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔ وہ یوں کہ علی گل برملا یہ کہتے ہیں کہ اگر ان کی بیٹیاں منظر عام پر آکر رضاکارانہ یہ اعلان کردیں کہ انہوں نے اپنی مرضی سے شادیاں کرلی ہیں تو وہ تسلیم کرلیں گے ۔

اس سارے معاملے پر ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے دلگرفتہ علی گل عباسی کا کہنا تھا ’’میں نے اپنی بیٹیوں کے اغوا کے مقدمہ میں وڈیروں علی مراد اور رسول بخش عباسی کو فریق بنایا ہے۔ انہوں نے ہی میری بیٹیوں کو اسلحہ کے زور پر کراچی سے اغوا کیا اور پنجاب لے گئے۔ مجھ پر ظلم کا پہاڑ گرایا گیا۔ پچھلے پانچ برس سے میرا ایک ایک دن صدی سے کم نہیں۔ دو ہزار سترہ میں پہلے میری دو بیٹیوں اور پھر دو ہزار انیس میں دیگر دو کو بھی اغوا کرلیا گیا۔ میں اپنی بیٹیوں کی بازیابی کے لئے کراچی اور پنجاب کے تھانوں میں رپورٹیں درج کراکے تھک گیا۔ لیکن میری شنوائی نہیں ہوئی۔

 

اس لئے مجھے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا۔ عدالت سے مجھے انصاف کی پوری امید ہے۔ میں نے کراچی میں گلشن معمار، سائٹ سپر ہائی وے انڈسٹریل ایریا اور گھوٹکی پولیس کے پاس بھی اپنی شکایات درج کرائیں۔ کئی بار آئی جی سندھ اور آئی جی پنجاب کے پاس گیا اور ان کے سامنے قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر انصاف کی اپیل کی۔ اس کا اثر صرف اتنا ہوا کہ آئی جی نے متعلقہ ایس ایس پیز کو بلاکر کارروائی کرنے کا کہا۔

 

جس کے بعد پولیس میری ایک بیٹی کا گجرات کا نکاح نامہ جبکہ دوسری بیٹی کا بہاولپور کا نکاح نامہ لے آئی۔ ستم یہ ہے کہ بہاولپور والے نکاح نامے میں میرے بجائے لڑکی کے والد کا نام کچھ اور لکھا ہوا ہے۔ میری دیگر دو بیٹیوں کے بارے میں تاحال پولیس کچھ بتانے سے قاصر ہے کہ وہ کس حال میں ہیں۔ زندہ ہیں یا قتل کردی گئی ہیں یا پھر انہیں کسی دوسرے ملک بھیج دی گئی ہیں‘‘۔

علی گل عباسی کی گفتگو میں کچھ توقف آیا۔ وہ رندھی ہوئی آواز میں دوبارہ گویا ہوا ’’میری بیٹیاں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ ان میں سے ایک بیٹی نے بی ایس سی اور ایم ایس سی کررکھا ہے۔ چاروں کی عمریں اٹھارہ برس سے تئیس برس تک ہیں۔ میں تو باپ ہوں کسی نہ کسی طرح اس جان لیوا غم کو برداشت کررہا ہوں۔ لڑکیوں کی والدہ کی حالت ناقابل بیان ہے۔ میری حکومت اور عدالت سے صرف اتنی اپیل ہے کہ کسی طرح میری بیٹیوں کو بازیاب کراکر میری ایک بار ان سے ملاقات کرادی جائے۔ عدالت میں اگر میری بیٹیاں یہ اقرار کرلیتی ہیں کہ انہوں نے پسند کی شادی کرلی ہے اور وہ خوش بھی ہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا‘‘۔ (جاری ہے)