عمران خان:
پاکستان میں ایسے دیہات بھی موجود ہیں۔ جہاں کی پوری کی پوری آبادی فراڈیوں پر مشتمل ہے۔ اب انہوں نے اسے ایک پیشے کی حیثیت سے اپنا لیا ہے۔ فراڈ کی وارداتوں سے حاصل ہونے والی آمدنی سے ان کے مکان ملکی اور غیر ملکی سامان سے بھر گئے ہیں۔ زمانہ قدیم سے نظر بندی اور دیگر مختلف چالبازیوں کے ذریعے شہریوں سے ان کی رقوم اور زیورات لوٹنے والے دیہاتی جدید زمانے میں آن لائن فراڈ کرنے لگے۔
ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کی تحقیقات میں معلوم ہوا ہے کہ پاکستان میں بیٹھ کر ملک بھر اور بیرون ملک آن لائن فراڈ کی وارداتیں کرنے والے ایک دہائی قبل تک صوبہ پنجاب کے علاقوں سرگودھا، فیصل آباد، لیہ اور ملتان کے دور دراز گائووں میں بھیڑ بکریاں چراتے تھے اور اب لوٹ اور فراڈ کی رقم سے ڈی ایچ اے اور بحریہ ٹاؤن اور دیگر پوش سوسائٹیز کے علاوہ دبئی میں جائیدادوں کے مالک بن چکے ہیں۔ موبائل فونز اور انٹرنیٹ کے ساتھ مختلف اداروں سے شہریوں کا ڈیٹا ہاتھ لگنے کے بعد اس کام کو آگے بڑھانے کے لیے انہوں نے باقائدہ ٹیوشن سینٹر کھول رکھے ہیں۔ جس میں انہی دیہاتوں کی نئی نسل کو تربیت دی جا رہی ہے۔ ان فراڈیوں نے گزشتہ برسوں میں انعامی اسکیم، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام، احساس پروگرام کے پیغامات چلا کر اور بینکنگ ڈیٹا استعمال کرکے کھاتوں سے رقوم چرا کر پاکستان میں تقریباً ہر اس فرد کو لوٹنے کی کامیاب یا ناکام کوشش کی۔ جس کے پاس موبائل فون اور یا سوشل میڈیاکی سہولت دستیاب ہے۔
انہی علاقوں میں پنجاب کے علاقے گوجرہ کا ایک گائوں چک نمبر 95 ب ج بھی شامل ہے۔ جہاں پر وارداتوں سے تنگ آکر ایک تھانیدار نے یہاں گزرنے والے لوگوں کو تنبہہ کرنے کیلیے ایک مستقل بورڈ بھی آویزاں کر دیا ہے۔ جس پر لکھا ہے کہ ’یہاں کے لوگ لوگوں کو دھوکہ دیکر مال اور سونے کو ڈبل کرنے کا لالچ دے کر لوٹ لیتے ہیں۔ اس لئے مطلع کیا جاتا ہے کہ ان کے جھانسے میں نہ آئیں‘۔ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کراچی کی ٹیم کا حصہ رہنے والے افسر جنہوں نے آن لائن فراڈ کی وارداتوں کی تفتیش میں سراغ ملنے پر پنجاب کے علاقوں میں کارروائیاں کرکے درجنوں افراد کو گرفتار کیا۔
ان کے مطابق ان افراد نے اپنے دیہاتوں میں درختوں اور راستوں پر بیٹری سے چلنے والے کیمرے تک لگا رکھے ہیں۔ جبکہ دیہاتوں سے کئی کئی کلومیٹر دور تک ان کے افراد موبائل فون لے کر بیٹھے ہوتے ہیں۔ جیسے ہی انہیں اطلاع ملتی ہے کہ مقامی پولیس یا کوئی دوسرے ادارے کے اہلکار ان کے علاقوں کی طرف جا رہے ہیں تو یہ پیشگی اطلاع پہنچا دیتے ہیں۔ جس کے بعد ان دیہاتوں کے تمام گھروں سے مرد غائب ہوجاتے ہیں۔ جبکہ عورتیں جمع ہوکر مزاحمت کرنے لگتی ہیں تاکہ اپنے مردوں کو اور جمع کیے گئے سامان کو بچایا جاسکے۔
ایف آئی اے تحقیقات کے مطابق ان دیہاتوں کے کم پڑھے لکھے افراد نے جو سب سے زیادہ جدید اور مشکل وارداتیں اپنائی ہیں۔ ان میں سر فہرست فِشنگ (phishing) ہے۔ بینک فراڈ، آن لائن فراڈ، لاٹری اسکیمز، جاب اسکیمز، پرائز ونر اسکیمز، کریڈٹ، ڈیبٹ کارڈ فراڈ، اے ٹی ایم اسکیمر ڈیوائسز سمیت کئی جرائم کے ذریعے معصوم شہریوں کو روزانہ ان کی جمع پونجی اور بھاری رقوم سے محروم کیا جا رہا ہے۔ جس میں بینک کا نمائندہ بن کر، کریڈٹ کارڈ کی تنسیخ کا کہہ کر، فوج کی جانب سے مردم شماری کا کہہ کر، قریبی عزیزوں کے اغوا یا ایکسیڈنٹ کا بتا کر، قرعہ اندازی میں نام نکلنے کے نام پر، پلاٹ نکلنے پر، بے نظیر انکم سپورٹ، احساس پروگرام اور نجی ٹی وی چینلز کے گیم شو کا نمائندہ بن کر جعل سازی کی جارہی ہے اور کروڑوں روپے شہریوں کی جیبوں سے نِکالے جا رہے۔
تفتیش کاروں کے مطابق ان جرائم میں ملوث ملزمان گروہوں کی شکل میں بیٹھے ہوئے ہیں اور فیصل آباد،گوجرانوالہ اور ملتان ان جعل سازوں کے گڑھ ہیں۔ یہ گروہ پنڈی بھٹیاں، سرگودھا، گوجرہ، سمندری، لیہ اور جہانیاں کے مضافات میں واقع دیہاتوں میں موجود ہیں اور 90 فیصد سے زیادہ اوڈھ قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا بنیادی پیشہ بکریاں چرانا اور کپڑے بیچنا ہے۔ ان کا ٹھکانا ایک جگہ نہیں ہوتا۔ یہ اپنے ٹھکانے تبدیل کرتے رہتے ہیں۔
یہ گروہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا نمائندہ بن کر، بینک کا نمائندہ بن کر ،مختلف چینلز پر چلنے والے انعامی گیم شوز کا نمائندہ بن کر شہریوں سے رابطہ کرتے ہیں اور ان سے رقم بٹورتے ہیں۔ جبکہ شہری کو جس سِم سے کال کی جاتی ہے۔ وہ غیر قانونی طریقوں سے حاصل کی جاتی ہے۔ ووٹر لِسٹوں، نادرہ یا محکمہ پاسپورٹ کے کسی اہلکار سے مل کر تھمب امپریشن لے کر اسے سیلیکون پر پیسٹ کر کے اسے پی وی ایس مشینوں کے ذریعے ایشو کر کے بائیو میٹرک کو بائی پاس کیا جاتا ہے۔ جبکہ چائنا سے بھی مشینیں اس کام کے لیے منگوائی جاتی ہیں۔ پہلے یہ گروہ چھوٹی چھوٹی کارروائیاں کرتے تھے۔ تاہم اب یہ بینکوں کا ون ٹائم پرمیشن کوڈ ’’او ٹی پی‘‘ حاصل کر کے بینک ویریفیکیشن کے نام پر پْوری رقم نِکال لیتے ہیں۔ اب تک ان کی وارداتوں کا دائرہ کار پاکستان سے نکل کر خلیجی ممالک تک پھیل چکا ہے۔ جس کے بعد دبئی میں یہ رقوم منگواتے ہیں اور وہاں سے رقم کی منتقلی کرتے ہیں۔ واٹس ایپ یا موبائل پر نمبر دوسرے ملک کا شو ہوتا ہے۔ تاہم یہ پاکستان کے ہی کسی دیہات سے بیٹھ کر بات کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ اسپوفنگ کرکے، سی ایل آئی تبدیل کر کے مختلف سافٹ وئیر جو پیڈ ہیں اور باآسانی خریدے جا سکتے ہیں، کا استعمال کر کے بیرون ملک بھی جرائم کرتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ اب ان ملزمان نے پورے نیٹ ورکس بنا لیے ہیں۔ اب یہ گروہ اور نیٹ ورکس محفوظ مقامات پر منتقل ہو گئے ہیں اور سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے یہ دوسروں پر اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر نظر رکھتے ہیں۔ ان کو ہر چیزکی اطلاع پہلے سے مل جاتی ہے۔
ادھر ایف آئی اے نے گرینڈ آپریشن کر کے ملک بھر کے کھاتہ داروں کو چونا لگانے والے 16 ملزمان گرفتار کر لئے۔ کراچی منتقلی کے بعد مقدمات درج کرکے ملزمان کے قبضے سے شناختی کارڈ، فون نمبر، فنگر پرنٹس اور بائیو میٹرک مشینیں برآمد کر لی گئی ہیں۔ کارروائیوں میں ایف آئی اے کرائم ونگ کی ٹیم کو مالباب کے علاقے میں ایک ایسا گاؤں بھی ملا جو فراڈیوں کا گڑھ تھا۔ ایف آئی اے کے ایک افسر نے بتایا کہ اس دھندے سے ان کے پاس اتنا پیسہ آ چکا ہے کہ جن زمینوں پر پہلے یہ کام کرتے تھے۔ وہ زمینیں انہوں نے خرید لی ہیں اوراب یہ لگژری گاڑیوں اور بڑے بڑے بنگلوں میں رہتے ہیں۔ ہزاروں سے شروع ہونے والے یہ فراڈ اب کروڑوں روپے تک جا پہنچے ہیں۔ اور پورے پورے گائوں کے لوگ یہ کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے ساتھیوں کو چھڑانے کے لیے مہنگے وکیل بھی ہائر کر لیے ہیں۔