کراچی (اسٹاف رپورٹر )امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے سندھ حکومت کو 24گھنٹوں کا الٹی میٹم دیا ہے اور متنبہ کیا ہے کہ کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے التواء کے لیے الیکشن کمیشن کوبھیجے گئے خطوط 24گھنٹوں کے اندر واپس نہ لیے تو وزیر اعلیٰ ہاؤس پر دھرنا دیں گے اور حالات کی تمام تر ذمہ دار ی حکومت پرعائد ہو گی، انتخابات کے التواء کا کوئی آئینی و قانونی اور جمہوری جواز موجود نہیں ہے،
ان کا کہنا تھا کہ گورنر ہاؤس،وزیر اعلیٰ ہاؤس اوربلاول ہاؤس سازشوں کے اڈے بنے ہوئے ہیں،ماضی کی طرح شہر کو ایک بار پھر تباہ و برباد کرنے کے لیے پیپلز پاٹی، ایم کیو ایم کے ساتھ اب نواز لیگ کی جوڑ توڑ اور سازشیں بھی جارہی ہیں، سندھ میں ایسا گورنر بنایا گیا ہے جس کا ماضی میں کرمنل ریکارڈ موجود ہے، جماعت اسلامی کی مقبولیت سے خوفزدہ ہوکر حکمران پارٹیاں اکھٹی ہورہی ہیں اور بلدیاتی الیکشن ملتوی کرانے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہیں کراچی کے شہری چاہتے ہیں کہ جماعت اسلامی کا میئر آئے اور شہر میں تعمیر وترقی کاکام دوبارہ شروع ہو۔کراچی میں ہر صورت میں بلدیا تی الیکشن 15جنوری کو ہو نے چاہیئے۔ عوام 8جنوری کو شاہراہ قائدین پر عظیم الشان اور تایخی ”اعلان کراچی“ جلسہ عام میں بھر پور شرکت کریں،جماعت اسلامی کے سوا کسی بھی جماعت کو اس شہر کی پروا نہیں ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کوادارہ نورحق میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
اس موقع پر جنرل سیکریٹری کراچی منعم ظفر خان،نائب امیر کراچی راجہ عارف سلطان،ڈپٹی سیکریٹری عبد الرزاق خان،سیکریٹری اطلاعات زاہد عسکری ودیگر بھی موجود تھے۔حافظ نعیم الرحمن نے مزیدکہاکہ اس وقت صوبہ سندھ بالخصوص کراچی تباہ حال ہے، پانی،بجلی، گیس، ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی اور ٹوٹی ہوئی سڑکوں سے عوام پریشان ہیں،کوشش کی جارہی ہے کہ کسی طرح بلدیاتی الیکشن ملتوی کرائے جائیں، جماعت اسلامی واحد جماعت ہے جو بلدیاتی الیکشن کروانے کی ہر ممکن کوشش کررہی ہے جب سے کامران ٹیسوری گورنر بنے ہیں سازشیں مزید بڑھ گئی ہیں وہ جسطرح کی جوڑ توڑ کررہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ وہ کسی خاص ایجنڈے پر آئے ہیں۔ایم کیو ایم حلقہ بندیوں پر اعتراض کررہی ہے یہ اعتراض اس وقت کیوں نہیں کیا گیا جب یہ اپنا مینڈیٹ فروخت کررہے تھے،
ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم نے ہمیشہ عوامی مینڈیٹ فروخت کیا اور شہر کی ترقی کے لیے عملاً کچھ نہیں کیا یہ ہر حکومت میں شامل رہی ہے 2013 کے ایکٹ کی منظوری میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم دونوں برابر کے شریک جرم رہے ہیں،سندھ حکومت جتنی کرپشن اور لوٹ مار کررہی ہے اس میں ایم کیو ایم برابر کی حصہ دار ہے 2018میں اہل کراچی نے پی ٹی آئی کو بھی مینڈیٹ دیا لیکن اس نے بھی کراچی کے لیے پیکجز کے اعلان تو کیے لیکن کام کچھ نہیں کیا۔ نیشنل ایکشن پلان میں بھی یہ طے ہوا تھا کہ کراچی میں ترقیاتی کام ہوں گے لیکن عمل نہیں کیا گیا۔ ہم مرتضی وہاب سے پوچھتے ہیں کہ کہاں ہے وہ 15ارب کی استرکاری کا کام؟ عوام کے ٹیکسوں کے پیسوں سے کرپشن کی جا رہی ہے، انتہائی ناقص مٹیریل استعمال کیا جا رہا ہے جتنی بھی سڑکوں کی استر کاری کی گئی وہ ساری کی ساری سڑکیں ٹوٹ گئی ہیں۔
حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ سندھ اسمبلی پر 29روزہ تاریخی دھرنے کے بعد پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے جو معاہدہ جماعت اسلامی کے ساتھ کیا تھا اور اس کا اعلان میڈیا کے سامنے کیا تھا اور یقین دہانی کرائی تھی کہ ہم اس کی ایک ایک شق پر عمل کرینگے خود وزیر اعلیٰ نے ادارہ نور حق آکر معاہدے پر عمل درآمد کا وعدہ کیا تھا۔ شروع میں اس معاہدے پر انہوں نے کام کیا تو ہم نے اس کا خیر مقدم کیا تھا لیکن جب ان کا ایم کیو ایم کے ساتھ دوبارہ اتحاد ہوا تو پھر سیاسی بند ربانٹ شروع ہو گئی۔کراچی کو حقوق، اختیارات اور وسائل کوئی دینے پر تیار نہیں ہے، سندھ حکومت این ایف سی ایوارڈ سے تو اپنا حصہ لے لیتی ہے لیکن پی ایف سی ایوارڈ جاری نہیں کیا جاتا، K-4منصوبہ 17سال سے تعطل کا شکار ہے، بلاول اور وزیر اعلیٰ بتائیں کہ یہ مکمل کیوں نہیں کیا گیا۔ کراچی میں ٹریفک اور ٹرانسپورٹ کے مسائل کے حل کے لیے ماس ٹرانزٹ سسٹم پر عمل درآمد کیوں نہیں کیا جاتا۔ شہر میں مسلح ڈکیتی اور اسٹریٹ کرائمز کی وارداتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں اور قیمتی انسانی جانیں ضائع ہو رہی ہیں لیکن پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی موجودگی کے باوجود کراچی کے عوام کو جان و مال کا تحفظ نہیں۔ اہل کراچی وفاقی و صوبائی حکومتوں اور حکمران پارٹیوں سے سوال کر رہے ہیں کہ ان کے حقوق،مسائل کا حل اور تحفظ کب ملے گ