زیادتی کے الزامات لگانے والی برطانوی لڑکی کا پول کھل گیا

لندن(انٹرنیشنل ڈیسک)برطانیہ کی بائیس سالہ لڑکی پر جھوٹ بول کر انصاف کی راہ میں رکاوٹ بننے ،ایشیائی گروپ کی جانب سے اغوا کرنے اور متعدد مردوں پر زیادتی کے جھوٹے الزامات عائد کرنے پر فرد جرم عائد کردی گئی ۔الینور ولیمز نے جب یہ الزامات فیس بک پر پوسٹ کئے تو دنیا بھر کے لوگوں نے اس پر یقین کرکے ان سے اظہار یکجہتی کیا ۔الینور کے الزامات کی زد میں ایک مسلمان شہری بھی آیا جس پر اس معاملے کو اسلاموفوبیا اور نسل پرستی سے بھی جوڑا گیا
برطانوی اخبار گارجین کے مطابق بائیس سالہ الینور ولیمز نے،جو ایلی کے نام سے مشہورہوئی، لاک ڈاؤن کے دوران 20 مئی کو فیس بک پر چند تصویروں کے ساتھ ایک پوسٹ شیئرکی جس میں اس نے دعویٰ کیا کہ اسے کچھ لوگ شمال مغربی برطانیہ کی ایک سیکس پارٹی میں لے گئے جہاں اسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا اوراجتماعی زیادتی کی گئی ۔ایلی کے فیس گروپ کو ایک لاکھ لوگوں نے جوائن کیا اور اس کی ایک ہزار لوگوں کی جانب سے بائیس ہزار پاؤنڈ کی امدادی رقم بھی جمع ہوئی ۔ اور لوگوں نے اسے انصاف دلانے کا مطالبہ شروع کردیا

برطانیہ کے علاقے بیرو سے تعلق رکھنے والی ایلی نے جن افراد پر الزام لگایا ان میں اس کے اپنےعلاقے کے لوگ بھی شامل تھے۔ الزامات کو سچ مان کر لوگوں نے سخت ردعمل بھی ظاہر کیا۔ الزامات کی زد میں آنے والوں میں کسی کے گھر کی کھڑکیاں توڑ دی گئیں تو کسی کے ریسٹورینٹ کا بائیکاٹ کیا گیا ۔ایک مسلم شخص کو لوگوں نے بیچ سڑک پر پکڑ کر اس کے سر پر شراب انڈیل دی ۔ ایک مقامی صحافی نے جب اسے سارے معاملے پر آواز اٹھائی تو اسے قتل کی دھمکیاں دی گئیں ،اور پولیس کے مشورے پر اسے دوسرے شہر منتقل ہونا پڑا ۔
ہر اس شخص کی زندگی تباہ ہوگئی ، جس پر ایلی نے الزام لگایا ۔ ان میں ایک اٹھارہ سالہ نوجوان تھا جسے دس ہفتوں کے لیے ریمانڈ پر جیل کاٹنا پڑی ۔ایلی نے اس پر زبردستی منشیات دینے اور زیادتی کرنے کا الزام لگایا۔ جو بعد میں غلط ثابت ہوا۔کیونکہ پولیس تفتیش کے دوران انکشاف ہوا کہ جس وقت ایلی نے نوجوان پر زیادتی کا الزام لگایا ، ٹھیک اسی وقت وہ نوجوان کسی اور لڑکی کے ساتھ دوسرے مقام پر تھا
ایلی نے دودیگر افراد پر بھی چاقو دکھا کرعصمت دری کا الزام لگایا اور دعویٰ کیا کہ ملزمان نے اسنیپ چیٹ کے ذریعے اس کی تصویریں بنا کر سوشل میڈیا پرپھیلائیں ۔ تاہم پولیس نے جلد یہ پتہ لگالیا کہ اسنیپ چیٹ کے جس اکاؤنٹ سے یہ تصویریں پھیلائی گئیں۔ اس کے لیے ویلی کی ماں کے گھر کا انٹرنیٹ کنکشن استعمال ہوا۔

یہ لوگ ان الزامات سے تو بری ہوگئے مگر اس سے ہونےو الی بدنامی نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا۔۔ان میں ایک کے گھر پر کسی نے پینٹ سے ریپسٹ لکھ دیا ۔۔اس شخص نے بتایا کہ اس واقعے سے وہ ڈپریشن کا شکار ہوگیا اور اگر وہ ایک بچے کا باپ نہ ہوتا تو خودکشی کرچکا ہوتا۔اس عورت نے میری زندگی برباد کردی۔میں ہمیشہ اپنے دوستوں کے ساتھ باہر رہتا تھا۔گھر پر بہت کم وقت گزارتا تھا مگر جب سے یہ واقعہ ہوا ہے میں سارا سارا دن گھر پر ہی رہتا ہوں، میں خود کو قیدی محسوس کرتا ہوا۔
مقامی مسلم تاجر محمد رمضان بھی ایلی کے جھوٹے الزام کا شکار ہوئے جس پر انہیں قتل کی پانچ سو سے زائد دھمکیاں ملیں ۔ ایلی نے محمد رمضان کو انسانی اسمگلنگ گینگ کا لیڈر قرار دیا اور الزام لگایا کہ محمد رمضان نے اسے ایمسٹرڈیم کے ایک قحبہ خانے میں بھاری رقم پر نیلام کیا جہاں دوسری لڑکیاں بھی تھیں ، وہاں اسے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا

اس الزام کی بھی ایلی نے سوشل میڈیا پر خوب تشہیر کی ۔لیکن پولیس کو یہ جاننے میں زیادہ دیر نہیں لگی کہ محمد رمضان پر لگائے گئے تمام الزامات غلط ہیں ۔کیونکہ جس وقت اس پر ایلی کو ایمسٹرڈیم میں فروخت کرنے کا الزام لگایا گیا اس وقت وہ برطانیہ میں تھا۔ اس کے پاسپورٹ ریکارڈ کے مطابق وہ کبھی ایمسٹرڈیم گیا ہی نہیں
اسی طرح دیگر نوجوانوں پر بھی ایلی نے الزامات لگائے ۔ ان سے سوشل میڈیا پر باتیں کیں اور ان کے نام ایشیائی لوگوں کے نام سے تبدیل کرکے ان کو ایشیا کا اغوا کار گینگ ثابت کرنے کی کوشش کی
استغاثہ نے بتایا کہ ایلی نے اغوا کار گینگ کا آئیڈیا بی بی سی کے ڈرامے تھری گرلز سے لیا۔ اسی طرح ایمسٹرڈیم کے قحبہ خانے میں فروخت کرنے کا منصوبہ اس نے ہالی وڈ فلم ٹیکن دیکھ کر بنایا
لوگوں کی ایلی سے ہمدردی کی بڑی وجہ اس کی وہ تصویریں تھیں، جو اس نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیں ، ان تصویروں میں اس کی سیاہ آنکھیں، سوجے ہونٹ جسم کے مختلف حصوں پر تشدد کےنشانات نمایاں تھے
جب ان تصویروں کا فارنزک ٹیسٹ کیا گیا تو انکشاف ہوا کہ تصویروں میں دکھائے جانے والے زخم ایلی کے اپنے لگائے ہوئے تھے
چھ مردوں اور چھ خواتین پر مشتمل جیوری نے محض ساڑھے تین گھنٹے کی سماعت میں الینور ولیمز کو انصاف کی راہ میں رکاوٹ کا مجرم قرار دیدیا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ ان تمام افراد کو جن پر الینور ولیمز نے الزامات عائد کئے انہیں ان الزامات سے بری کیاجاتا ہے ۔ الینور کو تیرہ مارچ کو سزا سنائی جائے گی