کراچی(نامہ نگار)علی محمد لغاری گوٹھ کیماڑی میں ہلاکتوں کی وجہ خسرہ قرار دیئے جانے پر شکوک وشبہات کااظہارکیاجارہے، غریب متاٹرین جن میں تھانے تک رسائی کی ہمت نہ تھی، کہیں سرمایہ دار فیکٹری مالکان اور راشی سیپاافسران کی دولت و اثر رسوخ کے باعٹ انصاف کے حصول سے محروم تو نہیں کر دیئے گئے کیونکہ مقدمات میں دفعات ناقابل ضمانت تھیں اس لیئے فیکٹریز مالکان اوران کے سرپرست سیپاافسران کابچنا محال تھااس لیئے بعض ذرائع اس خدشہ کااظہار کررہے ہیں کہ لیبارٹری پہنچنے سے قبل نمونے تبدیل تو نہیں کردیئے گئے کیونکہ اس ملک میں چیف جسٹس کے سامنے برآمدہ شراب کو لیبارٹری رپورٹ میں شہد ظاہر کرنے کی مٹال موجودہے اس سے قطع نظر کہ ہلاکتوں کی وجوہات کیاتھیں یہ اٹل حقیقت ہے جسے سیپانے خود تسلیم کیاکہ غیرقانونی فیکٹریز موجود ہیں جن میں open burning سے آلوودگی پھیلتی ہے، کیا گوٹھ آباد کی زمین پر فیکٹریوں کی تعمیر اور بعد ازاں ان میں مضر صحت مواد بغیر حفاظتی اقدامات جلانے کو روکنا سیپاکی ذمہ داری نہیں ہے یااس سانحہ سے قبل یابعد اس علاقے اور گردونواح میں موجود سیکڑوں غیرقانونی فیکٹریز کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہ کی گئی ، سانحہ مہران ٹائون کے ذمہ دار انسپکٹرعامرشیخ۔سانحہ حبیب بینک سائیٹ کے ذمہ دار عامر حبیب اور کیماڑی میں مذکورہ دونوں ملازمین کے علاوہ ان کے شریک جرم فیلڈ اسسٹنٹ آصف محمود اور فہد آفریدی کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جاتی؟ کیایہ تاٹردرست ہے کہ یہ افسران کے کمائو پوت کراچی بھر میں سیپاکاسسٹم چلاتے ہیں ،مومن آباد میں کارروائی سے قبل مخبری کرکے امن وامان کی صورتحال بناکر آپریشن رکوانے والے افسران کے بارے میں ایک برس گذرنے کے باوجود چھان بین کیوں نہیں گئی؟ کیاسیپاکے افسران نے ان فیکٹریز کو جاری سیپااین اوسیز چیک کیں اگر این اوسیز نہیں تھیں یاجعلی تھیں تو انہیں سیل کیوں نہ کیاگیا؟