کراچی (اسٹاف رپورٹر) نقیب اللہ قتل کیس میں بری ہونے والے سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار سمیت 18 پولیس افسران و اہلکاروں کی بریت کے خلاف سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کرلیاگیا۔ نقیب اللہ کے بھائی نےملزمان کی بریت کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کے لئے اپیل دائر کردی۔اہلخانہ نے اپیل میں فیصلہ شواہد کو نظر انداز کرتے ہوئے سنایا جانا قرار دیا ہے۔اپیل میں ملزمان کی بریت کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق نقیب اللہ قتل کیس میں بری ہونے والے سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار سمیت 18 پولیس افسران و اہلکاروں کی بریت کے خلاف مقتول کے اہلخانہ نے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا ہے۔
اس سلسلے میں نقیب کے بھائی شیر عالم نے اپنے وکیل کے توسط سے سندھ ہائی کورٹ میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی گئی ہے۔اپیل میں موقف اپنایا گیا کہ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے نقیب اللہ قتل کیس کا فیصلہ 23 جنوری 2023 کو سنایا تھا۔ عدالت نے عدم شواہد کی بناء پر راؤ انوار سمیت 18 ملزمان کو بری کردیا تھا۔انسداد دہشتگردی عدالت نے شواہد کو نظر انداز کرتے ہوئے ملزمان کو بری کیا۔لہذا استدعا ہے کہ انسداد دہشت گردی کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے۔ بری ہونے والوں میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار، ڈی ایس پی قمر احمد شیخ ،اے ایس آئی اللہ یار ، ہیڈ کانسٹیبل محمد اقبال ، کانسٹیبل ارشد علی ،غلام نازک ، عبدالعلی ، شفیق احمد ، اکبر ملاح، محمد انار، فیصل محمود، خیر محمد، عمران کاظمی ، شکیل فیروز، محمد یاسین ، سپرد حسین ، رئیس عباس اور خضر حیات شامل ہیں ۔اپیل کی آئندہ ہونے والی سماعتوں پر فریقین کو نوٹس جاری ہونا ہیں اور ان کے جوابات داخل ہونا ہیں۔قانونی ماہرین کے مطابق ملزمان کی بریت یا سزاؤں کے فیصلوں کی اپیلوں پر ماتحت عدالت میں ریکارڈ ہونے والے شواہد کو زیر غور لایا جاتا ہے جبکہ اگر کوئی ایسا شواہد جو ماتحت عدالت میں ریکارڈ ہوا ہو مگر وہ نظر سے نہ گزرا ہوتو اس کا بھی جائزہ لیا جاتا ہے۔
نقیب اللہ قتل کیس کے انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل میں بھی ماتحت عدالت میں ریکارڈ ہونے والے شواہد کو زیر غور لایا جائے گا ۔ علاوہ ازیں استغاثہ کی جانب سے ملزمان پر الزامات عائد کئے گئے تھے کہ ملزم راؤ انوار کے لوکیشن 4،5،8،9 اور 13 جنوری 2018 کو سپر ہائی وے سبزی منڈی چوکی پر پائی گئی۔فارنزک رپورٹ،ڈیجیٹل ثبوت ،لوکیشن ،ٹیکنیکل رپورٹس ودیگر شواہد سے راؤ انوار و دیگر ملزمان کے خلاف مقتولین کا ماورائے عدالت قتل ،مقتولین کو کالعدم تنظیموں کا کارکن بتایا جانا ، جھوٹے واقعات ہائی لائیٹ کرکے اپنے ماورائے عدالت قتل کو تحفظ دینا، شہادتوں کو ضائع کرنا ثابت ہوتا ہے ،اس کے علاوہ تفتیش سے ملزمان اللہ یار ،محمد اقبال ،ارشد علی ،غلام نازک ،شفیق احمد ،عبدالعلی کا نقیب اللہ اور اس کے ساتھیوں کو شیرآغا ہوٹل سے اٹھانا اور عباس ٹاؤن چوکی لیکر آنا اور جرم کی معلومات کو چھپانا ثابت ہوتا ہے۔
ان کے علاوہ ملزمان محمد یاسین، سپرد حسین اور خضرحیات کا پر نقیب اللہ اور اس کے ساتھیوں کو عباس ٹاؤن چوکی سے سبزی منڈی لے جانا ان پر تشدد کرنا اور پیسوں کا مطالبہ کرنا ثابت ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ مقدمہ میں 7 ملزمان سب انسپکٹر امان اللہ مروت ، اے ایس آئی گدا حسین، ہیڈ کانسٹیبل محسن عباس، سب انسپکٹر شیخ محمد شعیب عرف شعیب شوٹر، ہیڈ کانسٹیبل صداقت حسین شاہ، پولیس اہلکار راجہ شمس مختار اور رانا ریاض احمد مفرور ہیں جن کی گرفتاری پر ان کے خلاف مقدمہ دوبارہ کھولا جائے گا۔