جب لینن کے ماسکو میں عربی زبان نے جھنڈے گاڑے۔۔ سفرنامہ روس۔۔ دسواں حصہ

سجاد عباسی

روس جہاں خطے میں بڑے کھلاڑی کے طور پر امریکہ کی ’’چوہدراہٹ‘‘ کو کاؤنٹر کرنا چاہتا ہے، وہیں داعش جیسے ابھرتے ہوئے خطرے سے نمٹنا بھی اس کے لیے بڑا چیلنج ہے۔ اور ہر دو حوالوں سے پاکستان کا تعاون وہ اپنے لیے ناگزیر سمجھتا ہے۔ چونکہ یہ دونوں چیلنج کم یا زیادہ شدت کے ساتھ پاکستان کو بھی درپیش ہیں، لہٰذا موجودہ حالات میں دونوں ملکوں کے باہمی تعاون کی خواہش کو فطری بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ روس کو اس بات کا ادراک ہے کہ داعش افغانستان کے کئی اضلاع میں اپنا نیٹ ورک مضبوط کرچکی ہے اور افغانستان سے ملحقہ وسط ایشیائی ریاستوں کے راستے روس تک پہنچنا اور اس کے مفادات کو نقصان پہنچانا اس کے لئے زیادہ مشکل نہیں ہوگا۔ خاص طور پر اس وقت یہ خطرہ مزید بڑھ جاتا ہے جب اس تنظیم کو امریکہ کی خفیہ سرپرستی حاصل ہو۔

 

داعش کے خطرے سے نمٹنے کے لیے روس ہی کی خواہش پر چند برس قبل پاکستان، ایران، چین اور روس کے انٹیلی جنس حکام کے اجلاس میں مشترکہ جدوجہد کا فیصلہ کیا گیا تھا اور اس حوالے سے انٹیلی جنس شیئرنگ سمیت دیگر امور زیربحث آئے تھے۔ اجلاس میں بتایا گیا تھا کہ روسی انٹیلی جنس ذرائع کی حاصل کردہ معلومات کے مطابق داعش کے کم ازکم دس ہزار کارندے افغانستان کے 9 صوبوں میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ واضح رہے کہ افغانستان میں موجود داعش خود کو ’’خراسان شاخ‘‘ کہتی ہے اور اس کے دہشت گرد پاکستان میں بھی بڑی وارداتوں میں ملوث رہے ہیں۔ دوسری طرف داعش کے عفریت سے نمٹنے کے لئے افغان طالبان سے بہتر تعلقات کی روسی خواہش بھی فطری امر ہے۔ لہٰذا روس، افغان امن مذاکرات کو آگے بڑھانے کی سنجیدہ کوششوں میں بھی مصروف رہا ہے۔ باوجودیکہ روس کو یہ خدشہ اپنی جگہ لاحق رہا  کہ امریکہ، اس کی ایسی کسی بھی کوشش کو سبوتاژ کرنے کے لئے کوئی موقع ضائع نہیں کرے گا۔

نامور روسی ادیب سے منسوب  میکسم گورکی پارک

یہ امر قابل ذکر ہے کہ داعش نے روس میں کھیلے جانے والے فٹ بال ورلڈ کپ کو نشانہ بنانے کی بھی دھمکی دی تھی جس کے کامیاب انعقاد کو پیوٹن حکومت اپنا بڑا کارنامہ گردانتی ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ فٹ بال ورلڈ کپ کے موقع پر پورا روس دنیا بھر سے آنے والے شائقین کے لئے دیدہ و دل فرش راہ کیے ہوئے تھا۔ حکومت کے ساتھ روسی عوام کی اکثریت بھی اس سرگرمی میں شریک رہی۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں خصوصی لباس پہن کر غیر ملکی شائقین کا خیرمقدم کرنے میں مصروف تھے اور رضاکارانہ طور پر ٹریفک کنٹرول کرتے رہے۔ فٹ بال ورلڈ کپ کا ایونٹ ایک جانب روس کے لیے عالمی سطح پر ساکھ بہتر بنانے کے لیے اہم تھا، تو دوسری طرف اس سے بہت بڑے پیمانے پر بزنس ایکٹیویٹی جینریٹ ہو رہی تھی۔

 

بزنس کے حوالے سے روسی کس قدر حساس ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز اپنے 15 سو رکنی وفد کے ساتھ ماسکو کے غیر معمولی دورے پر تشریف لائے تو پورے دارالحکومت میں جگہ جگہ ان کی تصا ویر پر مبنی خیر مقدمی بینرز لہرانے لگے جو عربی زبان میں تھے۔ حالانکہ روس کے در و دیوار اور فضاؤں میں کسی اور زبان کے لیے کوئی گنجائش نہیں پائی جاتی، مگر چونکہ شاہ سلمان کی آمد پر جہاں دونوں ملکوں کے درمیان اربوں ڈالر کے دفاعی و تجارتی معاہدے ہونا تھے وہیں شاہی قافلے کے ڈیڑھ ہزار افراد کی رہائش اور کھانے پینے سمیت ٹرانسپورٹ کے انتظام و انصرام پر بھی لاکھوں ڈالر خرچ ہونا تھے۔ لہٰذا "گلشن کے کاروبار” کو فروغ دینے کیلئے ذہن و دل کے تمام دریچے کھول دئیے گئے۔ کہا جاتا ہے کہ اس موقع پر ماسکو کے بیشتر بڑے ہوٹل بک کرالیے گئے تھے جبکہ پورے شہر میں کرائے کی گاڑیاں دینے والوں کے بھی وارے نیارے ہوگئے تھے۔

 

مسلم دنیا کے شاہ اپنی جن شہ خرچیوں کیلئے مشہور ہیں، ان میں سعودی حکمرانوں کا نام سرفہرست آتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ شاہ سلمان اپنے ساتھ ذاتی باورچیوں کے علاوہ ملازمین کی فوج ظفر موج بھی لائے تھے۔ جہاز سے اترنے کیلئے خود کار گولڈن زینہ (Escalator) اور کارپٹ بھی ان کے ساتھ آیا تھا۔ جبکہ چار روز تک روسی دارالحکومت میں ان کی موجودگی کے دوران ان کے ذاتی استعمال کی اشیا اور خوراک کی رسد کیلئے ایک شاہی طیارہ ماسکو اور ریاض کے درمیان مسلسل اڑان بھرتا رہا۔ ایک اندازے کے مطابق اس بیچ تقریباً 8 سو کلو گرام خوراک کی سپلائی عمل میں لائی گئی۔ برسبیل تذکرہ امریکہ اور یورپ کے دیگر حصوں کی طرح روس میں بھی سعودی شاہی خاندان کے افراد کے کاروباری مفادات بڑے پیمانے پر موجود ہیں۔ ریڈ اسکوائر کے سامنے جس ’’ڈاکٹر ژواگو ریسٹورنٹ‘‘ پر ہم نے ناشتہ کیا تھا، اس کے بالکل سامنے واقع فور سیزن ہوٹل میں آدھے سے زیادہ شیئرز سعودی شہزادے طلال بن وحید کے بتائے جاتے ہیں۔

’’ڈاکٹر ژواگوریسٹورنٹ‘‘

کاروبار کے حوالے سے روسیوں کی حساسیت اور پیشہ ورانہ مہارت کی جھلک آپ کو تقریباً ہر شعبے میں دکھائی دے گی۔ ہمیں ماسکو اور سینٹ پیٹرزبرگ کے کوئی تین بڑے شاپنگ مالز اور مارکیٹوں میں جانے کا اتفاق ہوا جس میں خریداری کم اور مشاہدے کا عنصر زیادہ غالب رہا۔ ایک خاص بات یہ ہے کہ ایسے تمام مقامات، مارکیٹیں اور بازار جہاں سیّاحوں کی آمد و رفت زیادہ ہوتی ہے، وہاں فروخت ہونے والے 80 فیصد سے زائد آئٹمز یا تو روسی ثقافت کی نمائندگی کرتے ہیں اور وہاں کے مشہور مقامات اور عمارتوں وغیرہ کے سوؤینئرز پر مشتمل ہوتے ہیں، یا پھر لوکل مٹیریل اور ہاتھ سے بنی ہوئی نہایت خوبصورت اور معیاری اشیا فروخت کے لئے مارکیٹ میں لائی جاتی ہیں جنہیں انتہائی دیدہ زیب پیکنگ میں پیش کیا جاتا ہے۔ ان میں زیادہ تر آرائشی اشیا، کھلونے اور خواتین اور بچوں کے استعمال کی چیزیں شامل ہوتی ہیں۔ مارکیٹوں میں مردوں کے مقابلے میں سیلز گرلز کی تعداد زیادہ ہے اور چونکہ روس کی آبادی میں خواتین کا تناسب تقریباً 65 فیصد تک جا پہنچا ہے، لہذا یہ غالب اکثریت آپ کو دفاتر، شاپنگ سینٹرز اور مارکیٹوں سمیت ہر جگہ ’’غالب‘‘ ہی نظر آئے گی۔ خواتین کی نرم گفتاری، ’’خوش خلقی‘‘ ، قوت برداشت اور مخالف جنس کے لیے کشش کے لازمی مثبت اثرات کاروبار پر مرتب ہوتے ہیں۔

 

وہاں کے شاپنگ سینٹرز اور مارکیٹوں میں کام کرنے والی خواتین کی مارکیٹنگ میں مہارت (Skill )درجہ کمال پر ہے اور کسی دکان پر سرسری نگاہ ڈالتے ہوئے گزرنے کی کوشش بھی آپ کو ’’مہنگی‘‘ پڑ سکتی ہے۔ چھونے (اشیا کو) کی صورت میں تو آپ شاید اگلی دکان پر بھی جانے جوگے نہ رہیں۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ آپ کسی دکان پر سرسری جائزے کے لیے رکے تو وہاں کھڑی سیلز گرل (یہاں خوبصورت کی تکرار غیر ضروری ہے) سر جھکا کر آپ کو ویلکم کہے گی اور آپ سے مطلوبہ چیز کے حوالے سے دریافت کرے گی۔ اگر آپ نے کسی خاص کھلونے یا آئٹم کی نشاندہی کر دی تو وہ اس ’’فیملی‘‘ کی تمام اشیا ریکس سے نکال کر نہ صرف آپ کے سامنے ڈھیر لگا دے گی، بلکہ ایک ایک کرکے ہر چیز کی خصوصیات بھی بیان کرنا شروع کر دے گی۔ اس دوران چیزوں کا پھیلاؤ اور الٹ پلٹ تو لازمی ہے۔ چنانچہ آپ کتنے بھی خشک مزاج اور روکھے کیوں نہ ہوں، مارکیٹنگ کا یہ حربہ آپ کو گھائل کر دے گا۔ ہم تین لوگوں کے گروپ کے ساتھ بھی ایک ایسا ہی دلچسپ تجربہ ذرا مختلف انداز میں پیش آیا۔ سینٹ پیٹرز برگ میں مقیم پاکستانی آصف صدیقی ہمیں مارکیٹوں کا وزٹ کرا رہے تھے، مگر ماسکو کی مہنگائی کے تلخ تجربے کے پیش نظر ہم پرائس ٹیگز سے نظریں چرا کے گزر جاتے تھے۔ دراصل ہمارے پاس روسی کرنسی کی ’’محدود مقدار‘‘ موجود تھی، جو ہم نے بچوں کے لیے چھوٹے موٹے تحائف خریدنے کیلئے بچا رکھی تھی۔ سو ہم نے دبے لفظوں میں اس خواہش کا اظہار کیا کہ اگر آصف صدیقی اپنی جان پہچان کی بنیاد پر کچھ چیزیں ہمیں مناسب قیمت یا ڈسکاؤنٹ پر دلادیں تو یہ ان کی طرف سے ایک تحفہ ہوگا۔

روسی خاتون کی دکان سے مقامی اشیا کی خریداری کے بعدگم شاپنگ سنٹر ماسکو

انہوں نے وعدہ کر لیا کہ وہ ہمیں دو تین ایسے پاکستانیوں کی دکانوں پر لے جائیں گے جو بھائی چارے کی بنیاد پر زیادہ سے زیادہ رعایت دیں گے۔ ہم آس پاس کی دکانوں پر سرسری نگاہ ڈالتے ہوئے ’’مطلوب‘‘ پاکستانیوں کی دکانوں کی تلاش میں ان کے ساتھ جا رہے تھے کہ ایک جگہ دکان پر ان کی جاننے والی روسی لڑکی نظر آئی جو ان سے تو ’’پرجوش روایتی‘‘ انداز میں ملی، البتہ ہم تینوں سے مصافحے پر ہی اکتفا کیا۔ علیک سلیک کے بعد ہمارا روانگی کا قصد تھا کیونکہ دیگر ساتھی ہوٹل میں ہمارے منتظر تھے۔ مگر مذکورہ خاتون نے اصرار کیا کہ ہم لوگ ان کی دکان سے بھی ایک آدھ چیز خریدلیں تو انہیں ازحد مسرت ہوگی اور وہ اپنے پاکستانی دوست کی وجہ سے ہمیں خصوصی رعایت بھی دیں گی۔ آصف صدیقی نے اپنی دوست سے روسی زبان میں اتفاق کرتے ہوئے ہمیں اردو میں بتایا کہ یہاں چیزیں بہت مہنگی ہیں، یہ میرے نام پر ڈسکاؤنٹ کرکے بھی آپ لوگوں کو تقریباً لوٹ لے گی۔ مگر ہمارے ایک ساتھی کا کہنا تھا کہ اس قدر اخلاق سے پیش آنے والی خاتون سے ایک آدھ چیز لینے میں کوئی حرج نہیں۔ بقیہ شاپنگ ہم ’’حسب پروگرام‘‘ ہی کریں گے۔ بس پھر کیا تھا ایک کے بعد ایک چیز کھلتی گئی۔ بقول رسا چغتائی ’’پھر تو وہ جان حیا ایسا کھلا، ایسا کھلا‘‘ کہ کوئی ڈیڑھ گھنٹے بعد ہم تینوں کے ہاتھ میں موجود دو دو، تین تین شاپر بھرے ہوئے تھے مگر جیبیں خالی ہوچکی تھیں۔ چنانچہ ہم نے وہیں سے واپسی کی ٹھانی اور آصف صدیقی سے وعدہ کیا کہ اگلے ٹرپ میں ہم سینٹ پیٹرزبرگ آتے ہی سیدھے پاکستانی بھائیوں کی دکانوں پر چلیں گے۔
(جاری ہے)