کراچی(نامہ نگار)سانحہ لغاری گوٹھ پر سندھ ہائیکورٹ میں دائر پٹیشن کے خوف سے ادارہ تحفظ ماحولیات سندھ (سیپا)کے افسران نےدرجنوں ویسٹ ہینڈلرز کے منسوخ اجازت ناموں کی بحالی کو بھی کمائی کاذریعہ بنالیا۔کینیڈین نیشنل نان کیڈر سپریم کورٹ کے احکامات کے برخلاف لیبارٹری کے بجائے ضلع وسطی میں تعینات ڈپٹی ڈائریکٹر نے این اوسی بحالی کی رشوت مبینہ طورپر 8سے 10لاکھ روپے طلب کرلی ہے ۔کامران خان راجپوت عرف کامران کیمسٹ سیپاکاان داتابناہواہے۔ عامرشیخ اورعامرحبیب اس کا سسٹم چلانے والے اہم کارندے ہیں ،کامران کیمسٹ سسٹم کی دھڑلے سے رشوت طلبی کے قصے زبان زدعام ہیں لیکن سپریم کورٹ کے احکامات ردی کی ٹوکری میں ڈالنے والے اس افسر کا سانحہ مہران ٹائون میں16 مزدوروں کے زندہ جل جانے پر عدالتی حکم پر کارروائی سانحہ حبیب بینک میں آلودہ پانی کی گیس سے منہدم ہونے والے بینک کی عمارت میں شہادتوں بجلی نگر اورنگی ٹائون میں غیرقانونی فیکٹریوں کی مبینہ سرپرستی کے باوجود وہ ہر کارروائی سے مکمل محفوظ رہاہے۔ کراچی کے تمام اضلاع کے ڈپٹی ڈائریکٹرز بھی اس کے سامنے مکمل بے بس ہیں مذکورہ ڈپٹی ڈائریکٹرز اس کی مرضی کے خلاف کوئی این اوسی جاری نہیں کرسکتے۔ سانحہ لغاری گوٹھ بھی اسی کے دورتعیناتی کے دوران لگنے والی فیکٹریوں کی وجہ سے وقوع پذیر ہواوہ خود کو سیپاکاغیراعلانیہ ڈی جی گردانتاہے۔ سانحہ لغاری گوٹھ کے بعد ایکشن کمیٹی کی جانب سے سندھ ہائیکورٹ سے رجوع پر یہ اور اس کے دست راست عامرشیخ عامر حبیب اوردیگر پریشانی کاشکارہیں۔ ہائیکورٹ کے خوف سے انہوں نے ویسٹ ہینڈلرز کی این اوسیز منسوخ کردیں اور ہائیکورٹ کے کسی بھی حکم پر انہیں قربانی کابکرابنانے کافیصلہ کیالیکن بے گناہوں کاخون شاید انہیں انجام تک پہنچاکر ہی دم لے گا کیونکہ تمام جاری شوکازنوٹسزاور منسوخی لیٹرز کی تاریخیں اور مضمون ایک ہی ہے جو ان کی جعلسازی کاواضح ثبوت ہے جسے مدنظررکھتے ہوئے لغاری گوٹھ ایکشن کمیٹی کے رہنمائوں اور ایڈووکیٹ ہدایت علی لغاری نے آئندہ سماعت پر اسے بطور ثبوت ہائیکورٹ میں پیش کرنے کافیصلہ کیاہے حیران کن بات یہ بھی ہے کہ اس سے قبل ویسٹ ہینڈلرز کی اتنی بڑی ثعداد میں این اوسیز کبھی بھی منسوخ نہیں کی گئیں اگر کامران خان ۔منیرعباسی کی سپریم کورٹ کے احکامات کے خلاف تعیناتیوں اور ان کی سرپرستی میں لغاری گوٹھ کی غیرقانونی فیکٹریوں کے قیام کامعاملہ ہائیکورٹ میں اٹھایاگیاتوان کوعہدوں سے فوری طورپر ہٹانے اور ان کے خلاف سانحہ لغای گوٹھ پر کارروائی کے احکامات جاری ہوسکتے ہیں جس کی ہائیکورٹ میں زیرسماعت نوری آباد کی ایک فیکٹری کے کیس میں سیپاکے ایک اعلیٰ افسر کوعہدے سے ہٹانے کی مثال موجود ہے جس میں فاضل وکیل نےان افسر کی سپریم کورٹ ۔واٹرکمیشن کے احکامات کے خلاف تعیناتی کی نشاندہی کی تھی۔ دوسری جانب پولیس حکام نے ملزم کو منصف بنانے کے مصداق ہائیکورٹ کوبتایاکہ سیپاکی جانب سے بھیجی گئی رپورٹ موصول ہونے پر عدالت میں جمع کرائی جائے گی ممبر ایکشن کمیٹی عبدالحفیظ لغاری نے امت کوبتایاکہ انہیں شدیداندیشہ ہے کہ لیبارٹری رپورٹس بااثرسیپاافسران اور فیکٹری مالکان تبدیل کراسکتے ہیں ۔انہوں نے ایک انتہائی اہم نکتہ کی نشاندھی کی کہ اگر اموات خسرہ سے ہوئی ہوتیں تو فیکٹریاں سیل ہونے کے بعد اموات کیوں نہیں ہوئی ہیں عین ممکن ہے جوبچے خسرہ میں مبتلاتھے ان کی بیماری پر آلودگی نے جلتی پر تیل کاکام کیاہو جن متوفیان کی رپورٹس میں خسرہ پازیٹیو ایاہے ان کی موت بھی فیکٹریوں کی آلودگی سے ہوسکتی ہے ۔انہوں نے تفتیشی حکام سے مطالبہ کیاکہ فیکٹریوں کے سرپرست سیپاافسران کا کردار ہرگز نظر اندازنہ کیاجائے اورائندہ سماعت پر ہائیکورٹ کی نشاندہی سے قبل انہیں شامل تفتیش کیاجائے۔