کراچی ( رپورٹ ۔روحان ارشد )ایم کیو ایم لندن کے دہشت گردوں سے میرا کاروبار اور مکان واپس دلایا جائے ، میرے بچوں کی چھت چھینے والے قانون نافذ کرنے والوں اداروں کے سامنے دندناتے گھوم رہے ہیں ، پولیس سمیت تمام متعلقہ اداروں کو درخواستیں ارسال کی گئیں لیکن اداروں نے میری کوئی مدد نہیں کی اب یہ صورتحال ہے کہ اہلخانہ کو آبائی علاقے روانہ کرکے کراچی کے فٹ پاتھوں پر اپنی زندگی بسر کررہا ہوں ، یہ بات روزنامہ امت کراچی کے دفتر میں آکر خالد محمود ولد حاجی اسلم مرحوم نے نمائندے کو بتائی اور پولیس سمیت دیگر متعلقہ اداروں کی دی جانےوالی درخواستوں سے آگا ہ کیا ، خالد محمود نے بتایاکہ میں لیاقت آباد کا رہائشی ہوں اور ایک ٹھیکیدار منوہر لال ولد سیتل داس کے بے پناہ ظلم کا شکار ہوں اور پیشہ کے لحاظ سے ایک کارخانہ دار ہوں .
اس ٹھیکیدار سے بحیثیت سب کنٹریکٹر آرڈر لے کر اپنے کارخانے میں کام کرواتا تھا لیکن اس ٹھیکیدار منوہرلال نے میرے ملازم جمیل عرف چپٹا جس کا تعلق ماضی کی دہشت گرد تنظیم ایم کیو ایم لندن سے ہے اور اس نے لیاقت آباد سیکٹر کے بدنام دہشت گردوں آصف لنگڑا ،جاوید قطب الدین ،سعید بھرم کی مدد سے میرے تمام کاروبار جو کہ میرے والد صاحب نے 1952میں شروع کیا تھا زبردستی غیر قانونی طور پر 2009میں مکمل طور پر قبضہ کرلیا جبکہ جمیل چپٹانے اس ٹھیکیدار کی ہدایت پر میرے کارخانے اور کاروبار پر اپنا غیر قانونی قبضہ مضبوط کرنے کے لئے مجھ پر اور میرے اہل خانہ پر بے پناہ ظلم ڈھاتے ہوئے میرے گھر اور سامان پر بھی اپنا قبضہ کرلیا اورہمیں زبردستی ہمارے ہی گھر سے اورمحلے سے دربدر کردیا، میرے انکار کرنے پر جمیل چپٹانے دہشت گردوں کی مدد سے2008میں مجھے فائرنگ کرکے شدید زخمی بھی کیا میں شدید زخمی حالت اور بے سرو سامانی میں اپنی جوان بچیوں کے ساتھ اپنی عزت اور جان بچانے کے لئے سڑکوں پر دربدر ہوتا رہا مگر ہماری کسی نے کوئی مدد نہیں کی جس کی وجہ سے میں اپنی بچیوں سمیت خود کشی پر مجبور ہوگیا تھا ، اس کے بعد جمیل چپٹا نے ایک بار پھر مجھے اغوا کرواکر الکرم اسکوائر میں دہشت گردآصف عرف لنگڑا، سعید بھرم، جاوید قطب الدین وغیرہ کی مدد سے مجھ پر بے پناہ تشدد کیا اور میرے بازو کی نسیں کاٹ دیں، میرے پیٹ میں چھرا گھونپ دیا گیا اور نیم بے مردہ حالت میں ویران جگہ پر پھینک دیا جس کے بعد میں جان بچانے کیلئے کر کراچی چھوڑنے پر مجبور ہو گیا۔
میں اپنے اہل خانہ سمیت پنجاب کے شہر گجرات چلا گیا ۔خالدمحمود نے بتایا کہ میں اور میرے بچے آج تک بے سروسامانی میں زندگی گزار رہے ہیں اور یہ لوگ کسی بھی حالت میں جان سے ماردینا چاہتے ہیں جس کی وجہ سے مجھے جان کا خطرہ لاحق ہے اور ہمیں کوئی مدد نہیں مل رہی ہے، خالد محمود جب آپ بیتی سنارہے تھے کہ وہ زاروقطار رونے لگے اور آنسوں کے ساتھ بتایا کہ مجھ اور میرے گھر والوں پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم کی داستان بہت طویل ہے، ایم کیو ایم لندن کے دہشت گردوں کی شکایت اس وقت شریف آباد تھانے سے لیکر آئی جی آفس تک کی لیکن وہ دور ایم کیو ایم لندن الطاف گروپ کا تھا ،حکومت میں شامل ان ہی کے لوگ تھے ،میری پریشانی کو کسی نے پریشانی نہیں سمجھا ، دہشت گردوں نے لیاقت آباد ایف سی ایریا میں اپنے لوگوں کو یہ کہنا شروع کردیا کہ خالد پنجابی قوم سے تعلق رکھتا ہے ، اس کو محلے سے باہر نکالو ، آئے روز میرے گھر اور کارخانے کے باہر اسلحہ بردار لڑکے گھومتے رہتے تھے ،میرے گھر والوں اور مجھ کو ڈراتے دھمکاتے رہتے تھے.
خالد محمود نے بتایاکہ لیاقت آباد میں موجود رینجرز کے دفتر جاکر بھی شکایت کی لیکن انھوں نے میرا کوئی ساتھ نہیں دیا، خالد محمود کے مطابق اس نے جون 2022 میں دوبارہ سی ٹی ڈی ، اسپیشل برانچ ، ڈی جی آئی ایس آئی ، کورکمانڈر کراچی ، ڈی جی رینجرز و دیگر متعلقہ اداروں درخواستیں ارسال کیں کہ میری مدد کی جائے لیکن اب تک کسی ادارے میری مدد نہیں کی ، خالد محمود نے کہا کہ میں اپنے بچوں کی روزی کے لئے آخری دم تک کوشش کرتا رہوں گا کہ میں اپنا گھر اور کاروبار واپس لے سکو لیکن اداروں کی جانب سے خاموشی سمجھ نہیں آرہی ہے ،خالد محمود نے بتایا کہ میں روز محنت مزدوری کرکے چند پیسے کما تا ہوں ایک وقت کا کھانا کھاتا ہو ںتاکہ پیسے جوڑکر مہینے کے آخر میں اپنے گھر بھیج سکوں ، ا نہوں نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ میں در بدر کی ٹھوکریں کھا رہا ہوں اورکبھی کسی اور کبھی کسی فٹ پاتھ پر سوجاتاہوں ، بہت مشکل سے پیسے جمع کرکے( کی پیڈ والا موبائل )خریدا تاکہ اپنے گھروالوں سے رابطے میں رہ سکو ں لیکن چوروں نے ایک روز سوتے ہوئے میرا موبائل فون چوری کرلیا جس کی وجہ سے کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ، تاہم پھر محنت مزدوری کرکے مجبورا دوسرا موبائل فون خریدا ، خالد محمود نے امت کے توسط انتہائی درمندانہ اپیل کرتے ہوئے اعلی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ مجھے انصاف دلایا جائے ۔