کراچی (امت نیوز)امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمان اور پبلک ایڈ کمیٹی جماعت اسلامی کراچی کے صدر سیف الدین ایڈوکیٹ نے ڈیڑھ ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود الیکشن کمیشن کی جانب سے بلدیاتی انتخابی کا عمل مکمل نہ کرنے اور ملتوی شدہ 11 نشستوں کے انتخابی شیڈول کا اعلان نہ کرنے کے حوالے سے سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کردی
عثمان فاروق ایڈوکیٹ کے توسط سےدائر پٹیشن میں معزز عدالت سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ ملتوی شدہ گیارہ نشستوں کے انتخابی شیڈول کے حوالے سے فیصلہ جاری کرے تاکہ بلدیاتی انتخابات کا آئینی و جمہوری عمل مکمل ہو اور منتخب بلدیاتی نمائندوں کو عوام کے مسائل حل کرنے کا موقع ملے۔
اس موقع پر نائب امیر کراچی عبد الوہاب،ڈپٹی سکریٹری کراچی یونس بارائی اور سکریٹری اطلاعات زاہد عسکری بھی موجود تھے۔
بعد ازاں حافظ نعیم الرحمان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ الیکشن کمیشن انتخابات کے انعقاد کے لیے صرف چند اقدامات کے علاوہ کچھ بھی نہ کرسکا بلکہ اب تو عملاً الیکشن کمیشن پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے اور آراوز اور ڈی آراوز اصل میں الیکشن کمیشن بن گئے ہیں،الیکشن کمیشن نے سندھ حکومت و پیپلزپارٹی اور اس کے مقرر کردہ آراوراور ڈی آراوز کی ملی بھگت سے چھینی گئی نشستوں کے حوالے سے حق اور انصاف کی بنیاد پر فیصلہ اور ملتوی شدہ 11نشستوں کے انتخابی شیڈول کا اعلان نہ کیا تو10مارچ کو الیکشن کمیشن سندھ کے دفتر کے باہر دھرنا دیں گے،جو مطالبات کی منظوری تک جاری رہے گا،احتجاج کا دائرہ پورے شہر اور پورے ملک تک وسیع کردیا جائے گا،
انہوں نے کہا کہ یہ کراچی کے مستقبل کامعاملہ ہے،اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ کیماڑی میں پانچ یوسیز کا معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس ہے اس کے باوجود نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا۔
انہوں نے مزیدکہاکہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اور سعید غنی سن لیں کہ کراچی کا میئر فرمائشی پروگراموں سے نہیں کام کرنے سے بنے گا،اگر پیپلزپارٹی گزشتہ 15سال میں اندرون سندھ اور کراچی میں تعمیر وترقی کے کام کرتی تو کراچی کے عوام پیپلزپارٹی کے ساتھ کھڑے ہوتے، جعل سازی کر کے میئر منتخب کرنے کی کوشش کسی صورت کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔جماعت اسلامی جعل سازی کے ذریعے چھینی گئی نشستوں کے خلاف آئینی،قانونی اور جمہوری جنگ لڑے گی اورعوامی مینڈیٹ پر ڈاکا نہیں ڈالنے دیا جائے گا۔
انہوں نے کہاکہ 15جنوری کو کراچی میں بلدیاتی انتخابات ہوئے لیکن ابھی تک الیکشن کمیشن نے ملتوی شدہ 11نشستوں کے انتخابات کا اعلان نہیں کیا،9وارڈبھی ایسے ہیں جہاں کسی وجہ سے الیکشن ملتوی ہوا ہے،ہونا تویہ چاہئے تھاکہ فوراً ہی ملتوی شدہ نشستوں کے انتخابات کرا دیے جاتے تاکہ تمام ہاؤسز مکمل ہوتے اوربلدیاتی نمائندے اپنا کام شروع کردیتے لیکن بدقسمتی سے الیکشن کمیشن نے اپنی آئینی اور قانونی ذمہ داری پوری نہیں کی،
حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ بلدیاتی الیکشن کرانے میں سندھ ہائی کورٹ میں کئی مرتبہ آنا پڑاکئی پٹیشزفائل کیں اورسپریم کورٹ میں بھی سماعت ہوئی،اسلام آباد میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے دفتر بھی گئے اور کراچی میں دھرنے بھی دیئے اور اب جب یہ انتخابات ہوگئے تو ہاؤس مکمل نہیں ہورہا،انتخابی عمل کو آگے نہیں بڑھایا جارہا ہے۔منتخب نمائندوں کے ہونے کے باوجود عوام کے مسائل حل کرنے والا کوئی نہیں،
انہوں نے کہا کہ کتنی یوسیز ایسی ہیں جس میں جعلی طریقے سے ری کاؤنٹنگ کی گئی اس ری کاؤنٹنگ میں نشاندہی کی گئی کہ اس میں فارم 11،12آراوزنے نہیں دیے اور زبردستی ڈبل اور جعلی مہر لگاکے جماعت اسلامی کے ووٹوں کو ضائع کیا گیا اور جب یہ ری کاؤنٹنگ ہوئی تو تھیلے پھٹے ہوئے نکلے اور لفافوں کی سیلیں ٹوٹی ہوئی تھیں جس پر ہم نے الیکشن کمیشن کو مطلع کیا اور تصاویر بھی بھیجیں لیکن اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا گیا اور ان میں سے کئی یوسیز کو الیکشن کمیشن نے نوٹیفائی کردیا اس کا مطلب ہے کہ الیکشن کمیشن پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر اس کے نمبرز بڑھانا چاہتا ہے تاکہ پیپلز پارٹی کا دعویٰ کہ کراچی میں میئر جیالا آئے گا تو الیکشن کمیشن اس میں سہولت کار کا کردار ادا کررہا ہے۔ضلع غربی کی چھ نشستوں کا فیصلہ خود الیکشن کمیشن نے اپنے پاس محفوظ کیا تھا لیکن ڈیڑھ ماہ گزرنے کے باجود اب تک فیصلہ نہیں کیا گیا، سندھ حکومت کی جانب سے آراوز اور ڈی آراوزکو دھمکیاں دی جارہی ہیں اور ڈرادھمکا کر فارم 11اور12پر دوبارہ انگوٹھے لگوائے جارہے ہیں، بعض پریزائڈنگ افسران نے خود تصدیق کی ہے کہ اصلی فارم 11اور12جماعت اسلامی و دیگر پارٹی کے نمائندوں کے پاس ہیں لیکن بعد میں سندھ حکومت کے دباؤ کی وجہ سے جعلی فارم 11اور12جاری کیے گئے ہیں اس سے الیکشن کمیشن،آراوز،سندھ حکومت سب بے نقاب ہورہے ہیں یہ جمہوریت کے نام پر بدنما داغ ہے اس لیے الیکشن کمیشن کو حق اور انصاف کے ساتھ فیصلے کرنے چاہیے۔
انہوں نے مزیدکہاکہ دو یونین کمیٹیاں ایسی تھیں جہاں سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی نے ہارنے کے بعد ری کاؤنٹنگ کے نام پر جعلسازی کی اور ان کو اپنے نام کروالیا اور ان کا نوٹیفکیشن بھی الیکشن کمیشن سے کروالیاجبکہ ان کو پینڈنگ میں ہونا چاہیے تھا اس طرح یہ بے ایمانی کرکے اکثریت حاصل کرنا چاہتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اورنگی ٹاؤن کے عوام نے پیپلز پارٹی کو بری طرح مسترد کردیا لیکن وہاں بھی اس نے اپنے آراوز کے ذریعے جعلسازی کرکے کئی یوسیز کے نتائج اپنے نام کرلیے پیپلز پارٹی کا فرمائشی پروگرام یہ ہے کہ چاہے وہ دسویں نمبر پر ہوں لیکن اسے اورنگی ٹاؤن اور صفورا ٹاؤن چاہیے، پیپلز پارٹی کے تمام تر منفی ہتھکنڈوں کے باوجود کراچی کے عوام نے جماعت اسلامی کو سب سے زیادہ ووٹ دیے ہیں اور ہماری سیٹیں بھی سب سے زیادہ ہیں پیپلزپارٹی اب کچھ بھی کر لے کہ کراچی کا میئر جماعت اسلامی کا ہی ہو گا