کراچی (رپورٹ: ارشاد کھوکھر) نئی فصل کی گندم آنے کے باوجود بھی محکمہ خوراک کی بے لگام کمیشن مافیا کے کرتوتوں کے باعث فی کلو گرام آٹے کے نرخوں میں مزید 13 روپے کا اضافہ ہو گیا ہے جس کے باعث عوام کو فی کلو گرام آٹا 150 روپے سے 160 روپے تک مل رہا ہے جبکہ مخصوص برانڈ کے آٹے کے نرخ 170 روپے تک جاپہنچے ہیں۔
اس سے سندھ کے عوام پر صرف آٹے کی مد میں ماہانہ بوجھ 20 ارب روپے سے 30 ارب روپے تک بڑھ گیا ہے۔ محکمہ خوراک کی مافیا نے گندم خریداری میں دلچسپی لینے کے بجائے اوپن مارکیٹ میں گندم کے فی ٹرک پر 3 لاکھ روپے (فی بوری ایک ہزار روپے) کمیشن بٹورنا شروع کر دیا ہے۔ جس کے باعث اوپن مارکیٹ میں فی کلو گرام گندم کے نرخ 125 روپے تک پہنچ چکے ہیں مذکورہ تمام منافع خوری کے پیچھے چور فلور ملوں اور محکمہ خوراک کی مافیا کے یہ عزائم بھی ہیں کہ حکومت رمضان پیکیج کا اعلان کرے تاکہ انہیں اربوں روپے کی سبسڈی ہڑپ کرنے اور اپنے گھپلے چھپانے کا موقع مل سکے۔
تفصیلات کے مطابق حکومت سندھ نے 20 جنوری 2022ء کے بعد فی کلو گرام ڈھائی نمبر آٹے کے ایکس مل نرخ 95 روپے اور ریٹیل نرخ 100 روپے مقرر کیے تھے۔ لیکن محکمہ خوراک کی کمیشن و خودبرد مافیا کے کارناموں کے باعث محکمہ خوراک کے پاس صاف ستھری گندم کے ذخائر نہ ہونے کے باعث فلور ملز مالکان اوپن مارکیٹ کی گندم پر انحصار کررہے ہیں۔
دو روز قبل بھی سرکاری نرخوں کے مقابلے میں فی کلو گرام ڈھائی نمبر آٹے کے نرخ 30 روپے زیادہ یعنی 125 روپے تھے جس کے بعد فلور ملز مالکان نے فی کلو گرام ڈھائی نمبر آٹے کے ایکس مل نرخ 13 روپے اضافے کے ساتھ 138 روپے اور میدہ فائن آٹے کے نرخ 140 روپے کر دیے ہیں۔ ایسے میں ریٹیلر مافیا بھی اس صورت حال سے بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہے عوام کو فی کلو گرام ڈھائی نمبر آٹا 150 روپے، میدہ فائن 150 روپے سے 160 روپے اور پیور چکی آٹا 160 روپے سے 165 روپے مل رہا ہے جبکہ مختلف فلور ملوں کے مخصوص برانڈ والے فی دس کلو گرام والے آٹے کے تھیلے کے نرخ ایک ہزار 700 روپے (فی کلو گرام 170 روپے) ہو گئے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ سندھ میں آٹے سمیت گندم سے بننے والی دیگر مصنوعات کی طلب پوری کرنے کے لیے 5 لاکھ ٹن یعنی 50 لاکھ بوری گندم کی ضرورت ہوتی ہے اس حساب سے سرکاری نرخوں کو دیکھا جائے تو اس کے مقابلے میں عوام فی کلو گرام آٹا 60 روپے اضافی نرخوں پر خریدنے پر مجبور ہیں جس سے مہنگائی کی چکی میں پہلے ہی پسے ہوئے عوام پر مذکورہ مد میں ماہانہ بوجھ 30 ارب روپے تک کا ہو گیا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ آٹا مہنگا ہونے کی بنیاد خود حکومت نے رکھی تھی۔ کیونکہ حکومت نے فی کلو گرام گندم کی امدادی قیمت 55 روپے سے بڑھا کر 100 روپے کر دی ہے اور اب نئی فصل کی گندم آنے کے باعث مروجہ پالیسی کے تحت محکمہ خوراک کا 15 مارچ سے سرکاری گندم کا اجرا بند ہو جائے گا اور ہر سال ایسا ہوتا رہتا ہے یہ کوئی نئی بات نہیں۔ اس کے بعد فلور ملز مالکان تمام تر گندم اوپن مارکیٹ سے خریدتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے مقرر کردہ گندم کی امدادی قیمت فی کلو گرام سو روپے کو دیکھا جائے تو اس حساب سے بھی عوام کو فی کلو گرام آٹا ایک سو بیس روپے تک ملنا چاہیے اس حساب بھی دیکھا جائے تو عوام کو فی کلو گرام آٹا 40 روپے اضافی نرخوں پر مل رہا ہے جس کا عوام پر ماہانہ بوجھ 20 ارب روپے ہوتا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ گزشتہ روز کراچی کی اوپن مارکیٹ میں فی سو کلو گرام گندم کے سودے ساڑھے بارہ ہزار روپے (فی کلو گرام 125 روپے) میں ہوئے جس کے بعد فلور ملوں نے آٹے کے نرخوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ جہاں تک اوپن مارکیٹ میں گندم کے نرخوں میں اضافے کے بات ہے تو اس میں بھی محکمہ خوراک کی کمیشن مافیا کا کردار شامل ہے۔ مذکورہ مافیا کے سرغنہ محکمہ خوراک کے گریڈ 15 کے ایک ملازم حسن علی مگسی ہیں۔ جنہوں نے بیوپاریوں، ذخیرہ اندوزوں وغیرہ کا ایک مکمل نیٹ ورک بنایا ہوا ہے جن سے وہ بھاری رقم بھتے کے طور پر پیشگی وصول کرتے ہیں اور جو بیوپاری اس کے نیٹ ورک سے باہر ہیں ان کی جانب سے اوپن مارکیٹ میں بھیجی جانے والی گندم کے فی ٹرک پر 3 لاکھ سے 4 لاکھ روپے بھتہ وصول کیا جاتا ہے جس کے بعد ان ٹرکوں کو مارکیٹ میں جانے کی اجازت ہوتی ہے اور ساری پکڑ دھکڑ اور کمیشن خوری کو یہ کہہ کر چھپایا جارہا ہے کہ محکمہ خوراک اپنی خریداری کا ہدف پورا کرنے کے لیے گندم کے ٹرک پکڑ رہی ہے۔
ذرائع نے یہ بھی بتایا محکمہ خوراک کی کمیشن مافیا اور چور فلور ملوں کے مالکان کی بھرپور کوشش ہے کہ حکومت سندھ رمضان المبارک میں عوام کو سستا آٹا فراہم کرنے کے لیے رمضان پیکیج کا اعلان کرے تاکہ گندم پر دی جانے والی سبسڈی کی نوے فیصد رقم وہ خود مل کر ہڑپ کرلیں اور اس میں کمیشن مافیا کا گندم پر کمیشن بٹورنے کے ساتھ یہ مفاد بھی شامل ہے کہ فلور ملوں کو سرکاری گندم کے اجرا کی آڑ میں وہ اپنے گھپلے چھپا سکیں کیونکہ محکمہ خوراک کے پاس اس وقت پرانی فصل کی گندم نہیں ہے اور اصول یہ رہا ہے کہ جب گندم کی خریداری کا عمل شروع ہو تو اس صورت حال میں گندم کا اجرا نہیں ہوتا لیکن مافیا کی اس مرتبہ کوشش ہے کہ گندم کی خریداری کے ساتھ اجرا بھی شروع کیا جائے تاکہ انہیں مزید گھپلے کرنے کا بھی موقع مل سکے۔
تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ اعلیٰ صوبائی حکام اس کے حق میں نہیں ہیں۔ اس طرح آٹے کے نرخوں میں ہوشربا اضافے کے پیچھے محکمہ خوراک کی کمیشن مافیا اور چور فلور مل مالکان کے مفادات کارفرما ہیں۔